سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 296
حدیث قرطاس (وفات سے چار روز قبل بروزجمعرات)
وفات سے چار دن پہلے جمعرات کو جب کہ آپﷺ سخت تکلیف سے دوچار تھے فرمایا :
لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اس وقت گھر میں کئی آدمی تھے۔ جن میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ انہوں نے کہا : آپﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ بس اللہ کی یہ کتاب تمہارے لیے کافی ہے۔ اس پر گھر کے اندر موجود لوگوں میں اختلاف پڑگیا اور وہ جھگڑ پڑے۔ کوئی کہہ رہا تھا :لاؤ رسول اللہﷺ لکھ دیں۔ اور کوئی وہی کہہ رہاتھا جو حضرت عمرؓ نے کہا تھا۔ اس طرح لوگوں نے جب زیادہ شوروشغب اور اختلاف کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔
( متفق علیہ : صحیح بخاری ۱/۲۲، ۴۲۹ ، ۴۴۹،۲/۶۳۸)
یہ واقعہ جمعرات کے دن کا ہے، اور حضور اکرمﷺ نے پیر کو انتقال فرمایا، یعنی کہ اس واقعہ کے بعد آپ ﷺ چارروز تک حیات رہے، اگر آپﷺ چاہتے تو دوبارہ اس بات کا حکم دے سکتے تھے، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حاضرین نے وصیت کا لکھوانا یاد دلایا ، آپﷺ نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو ، میں اس وقت جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو، پھر آپﷺ نے تین وصیتیں فرمائیں:
(۱) یہود کو عرب سے باہر نکال دو،
(۲) وفود کی رہنمائی کرو اور انہیں زادِ راہ دو ،
(۳) تیسری بات راوی بھول گیا لیکن صحیح بخاری کی کتاب الوصایا میں حضرت عبداللہ ؓ بن ابی اوفی نے کہا کہ قرآن مجید کے متعلق وصیت فرمائی، آپﷺ نے یہ بھی وصیت فرمائی کہ’‘ میرے وارث نہ دینار تقسیم کریں اور نہ درہم، ہم (انبیاء)اپنی بیویوں کے اخراجات اور اپنے عامل کی اجرت کے علاوہ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے"
کچھ سرخ دینار کہیں سے آئے تھے، صدقہ کے بعد سات یا آٹھ دینار حضرت عائشہؓ کے پاس تھے، بے ہوشی کے بعد جب آپ ﷺ کو ہوش آیا تو پوچھا … ان دینار کا کیا ہوا ؟ عرض کیا : رکھے ہیں، فرمایا : صدقہ کر دو، کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے پاس اس حالت میں جائیں کہ یہ سب کچھ ہو، اس روز تک کی تمام نمازیں آنحضرت ﷺ نے خود پڑھائیں، نماز مغرب میں سورۂ والمرسلات کی تلاوت فرمائی، یہ آخری نماز تھی جو صحابہؓ نے آپﷺ کی امامت میں ادا کی۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں