سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 293
آخری فوجی مہم۔ سریہ اسامہ بن زیدؓ:
رومن امپائر کی کبریائی کو گوارا نہ تھا کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے زندہ رہنے کا حق تسلیم کرے۔ اسی لیے اس کے قلمرو میں رہنے والا کوئی شخص اسلام کا حلقۂ بگوش ہوجاتا تو اس کے جان کی خیر نہ رہتی، جیسا کہ معان کے رومی گورنر حضرت فروہ بن عمرو جذامیؓ کے ساتھ پیش آچکا تھا۔
اس جرأت بے محابا اور اس غرورِ بےجا کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے صفر ۱۱ ھ میں ایک بڑے لشکر کی تیاری شروع فرمائی اور حضرت اسامہ بن زید بن حارثہؓ کو اس کاسپہ سالار مقرر فرماتے ہوئے حکم دیا کہ بلقاء کا علاقہ اور داروم کی فلسطینی سر زمین سواروں کے ذریعہ روند آؤ۔
اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کو خوف زدہ کرتے ہوئے ان کی حدود پر واقع عرب قبائل کا اعتماد بحال کیا جائے۔ اور کسی کو یہ تصور کرنے کی گنجائش نہ دی جائے کہ کلیسا کے تشدد پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ اور اسلام قبول کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اپنی موت کو دعوت دی جارہی ہے۔
اس موقع پر کچھ لوگوں نے سپہ سالار کی نو عمری کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا۔ اور اس مہم کے اندر شمولیت میں تاخیر کی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ ان کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کر رہے ہو تو ان سے پہلے ان کے والد کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کرچکے ہو۔ حالانکہ وہ اللہ کی قسم ! سپہ سالاری کے اہل تھے۔ اور میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھے۔ اور یہ بھی ان کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہیں۔( صحیح بخاری :باب بعث النبیﷺ اُسامۃ ۲/۶۱۲)
بہر حال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت اسامہ ؓ کے گردا گرد جمع ہوکر ان کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ اور لشکر روانہ ہوکر مدینہ سے تین میل دور مقام جرف میں خیمہ زن بھی ہوگیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے متعلق تشویشناک خبروں کے سبب آگے نہ بڑھ سکا بلکہ اللہ کے فیصلے کے انتظار میں وہیں ٹھہرنے پر مجبور ہوگیا۔ اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ لشکر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت کی پہلی فوجی مہم قرار پائے۔ ( ایضا صحیح بخاری ، وابن ہشام ۲/۶۰۶ ، ۶۵۰)
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں