سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 294
حیاتِ طیبہ کا آخری باب:
جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہ ﷺ کے جذبات واحساسات، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپ ﷺ اس حیاتِ مستعار کو اور اس جہان فانی کے باشندگان کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلاً:
آپ ﷺ نے رمضان ۱۰ ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جبکہ ہمیشہ دس ہی دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو مرتبہ قرآن کا دَور کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دَور کرایا کرتے تھے، آپ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا: '' مجھے معلوم نہیں غالبا میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا۔'' جمرۂ عقبہ کے پاس فرمایا: '' مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو، کیونکہ میں اس سال کے بعد غالباً حج نہ کرسکوں گا۔''
آپ ﷺ پر ایام تشریق کے وسط میں سورۂ نصر نازل ہوئی اور اس سے آپ ﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے اور یہ موت کی اطلاع ہے، اوائل صفر ۱۱ ھ میں آپ ﷺ دامنِ اُحد میں تشریف لے گئے اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں، پھر واپس آکر منبر پر فروکش ہوئے اور فرمایا: '' میں تمہارا میر کارواں ہوں اور تم پر گواہ ہوں، واللہ! میں اس وقت اپنا حوض ( حوضِ کوثر ) دیکھ رہا ہوں، مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور واللہ! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے، بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا کے بارے میں تنافس کروگے۔'' (متفق علیہ۔ صحیح بخاری ۲/۵۸۵، فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۴،۳۵۹۶، ۴۰۴۲، ۴۰۸۵،۶۴۲۶،۶۵۹۰)
ایک روز نصف رات کو آپ ﷺ بقیع تشریف لے گئے اور اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی، فرمایا:
'' اے قبر والو! تم پر سلام۔ لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو، فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے سے زیادہ برا ہے، اس کے بعد یہ کہہ کر اہلِ قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آ ملنے والے ہیں۔''
۲۹ صفر ۱۱ ھ روز دوشنبہ کو رسول اللہ ﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے، واپسی پر راستے ہی میں دردِ سر شروع ہوگیا اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی، یہ آپ ﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا، آپ ﷺ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی، مرض کی کل مدت ۱۳ یا ۱۴ دن تھی۔
رسول اللہ ﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی، اس دوران آپ ﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا؟ میں کل کہاں رہوں گا؟ اس سوال سے آپ ﷺ کا جو مقصود تھا ازواج مطہرات اسے سمجھ گئیں، چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپ ﷺ جہاں چاہیں رہیں، اس کے بعد آپ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں منتقل ہوگئے، منتقلی کے وقت حضرت فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے، سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، اس کیفیت کے ساتھ آپ حضرت عائشہ کے مکان میں تشریف لائے اور پھر حیاتِ مبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گزارا۔
حضرت عائشہ ؓ معوذات اور رسول اللہ ﷺ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپ ﷺ پر دم کرتی رہتی تھیں اور برکت کی امید میں آپ ﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں