سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 290


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 290

حدیثِ جبریل:

حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرتﷺ صحابہؓ کرام کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے، حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اچانک ایک اجنبی حاضر ہوا، اس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بے حد سیاہ تھے، لباس سے خوشبو کی مہک آرہی تھی، اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کچھ آثار نہ تھے، ہم میں سے کوئی اس نو وارد کو جانتا نہیں تھا، وہ آپﷺ کے قریب نہایت ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور گھٹنے حضورﷺ کے گھٹنوں سے ملا دیئے، اس شخص نے دریافت کیا …

اے محمد ﷺ ! اسلام کیا ہے ؟

حضور ﷺ نے فرمایا:

اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کر و، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت ہے تو حج کرو۔

نو وارد نے جواب سن کر کہا، آپ ﷺ نے سچ کہا، اس نے پھر پوچھا …

مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے ؟

آپ ﷺ فرمایا :

ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی کتاب کو، اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو۔

یہ سن کر بھی اس نے کہا کہ آپ ﷺ نے سچ کہا۔

حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کرتا ہے، پھر اس نے پوچھا …

احسان کس چیز کا نام ہے؟

آپ ﷺ فرمایا :

احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسی دل لگا کر کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

نو وارد نے سوال کیا …

قیامت کب آئے گی؟

آپ ﷺ فرمایا:

جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔

نو وارد نے عرض کیا:

مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے۔

آپ ﷺ فرمایا:

میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں

(۱) جب لونڈی اپنے آقا اور مالک کو جنے گی۔
(۲) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، صحیح بخاری کے بموجب قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر آنحضرت ﷺ نے سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے :

" اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (نر ہے یا مادہ ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اُسے موت آئے گی، بے شک اللہ ہی جاننے والا ہے، خبر دار ہے "
(سورۂ لقمان : ۳۴ )

پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! اس کو پھر لے آؤ ، لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا۔ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کو کچھ عرصہ بیت گیا، ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا: اے عمر! کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ شخص جو سوالات کر رہا تھا کون تھا ؟
حضرت عمرؓ نے عرض کیا! اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا، وہ جبرئیلؑ تھے، تمہاری مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں۔

یہ بہت مشہور حدیث ہے جو عام طور پر حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے، اسے " اُم الاحادیث " بھی کہا جاتا ہے، اسے حیات طیبہ کی ۲۳ سالہ جد وجہد کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے، یہ واقعہ تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد اس وقت ہوا جبکہ اس دنیا میں آپ ﷺ کی عمر مبارک میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے۔

حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جبرئیل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہوں لیکن اس دفعہ نہ پہچان سکا کیونکہ وہ ایک بدو سائل کے بھیس میں آئے تھے، امین وحی نہیں بلکہ ملائکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے، میں نے انھیں افق اور سدرۃالمنتہیٰ پر ہیٔت اصلی میں بھی دیکھا، یہ موقع عینی مخلوق کی نمائندگی کا تھا لہٰذا پردہ بعد میں اٹھا، دین مکمل ہوگیا، اب قیامت تک اس میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ بیشی، زمین وآسمان کی مخلوق نے گواہی دی.
(سیرت احمد مجتبی ﷺ ٰ)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں