سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 148
احد اور مدینے کے درمیان شب گزاری:
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ''شیخان'' نامی ایک مقام تک پہنچ کر لشکر کا معائنہ فرمایا، جو لوگ چھوٹے یا ناقابل جنگ نظر آئے انہیں واپس کر دیا، البتہ صغر سنّی کے باوجود حضرت رافع بن خدیج اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما کو جنگ میں شرکت کی اجازت مل گئی، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے، اس لیے انہیں اجازت مل گئی، جب انہیں اجازت مل گئی تو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو رافع سے زیادہ طاقتور ہوں، میں اسے پچھاڑ سکتا ہوں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سامنے دونوں سے کشتی لڑوائی اور واقعتا سمرہ رضی اللہ عنہ نے رافع رضی اللہ عنہ کو پچھاڑ دیا، لہٰذا انہیں بھی اجازت مل گئی۔
یہیں شام ہوچکی تھی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہیں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور یہیں رات بھی گزارنے کا فیصلہ کیا، پہرے کے لیے پچاس صحابہ منتخب فرمائے جو کیمپ کے گرد وپیش گشت لگاتے رہتے تھے، ان کے قائد محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ تھے، یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگانے والی جماعت کی قیادت فرمائی تھی، ذکوان بن عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ خاص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہرہ دے رہے تھے۔
طلوع فجر سے کچھ پہلے آپ پھر چل پڑے اور مقام ''شوط'' پہنچ کر فجر کی نماز پڑھی، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمن کے بالکل قریب تھے اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، یہیں پہنچ کر عبداللہ بن اُبیّ منافق نے بغاوت کردی اور کوئی ایک تہائی لشکر یعنی تین سو افراد کو لے کر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ کیوں خواہ مخواہ اپنی جان دیں، اس نے اس بات پر بھی احتجاج کا مظاہرہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بات نہیں مانی اور دوسروں کی بات مان لی۔
یقیناً اس علیحدگی کا سبب وہ نہیں تھا جو اس منافق نے ظاہر کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بات نہیں مانی، کیونکہ اس صورت میں جیش نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہاں تک اس کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اسے لشکر کی روانگی کے پہلے ہی قدم پر الگ ہوجانا چاہیے تھا، اس لیے حقیقت وہ نہیں جو اس نے ظاہر کی تھی بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس نازک موڑ پر الگ ہوکر اسلامی لشکر میں ایسے وقت اضطراب اور کھلبلی مچانا چاہتا تھا جب دشمن اس کی ایک ایک نقل وحرکت دیکھ رہا ہو، تاکہ ایک طرف تو عام فوجی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں اور جو باقی رہ جائیں ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور دوسری طرف اس منظر کو دیکھ کر دشمن کی ہمت بندھے اور اس کے حوصلے بلند ہوں۔
لہٰذا یہ کارروائی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے مخلص ساتھیوں کے خاتمے کی ایک مؤثر تدبیر تھی، جس کے بعداس منافق کو توقع تھی کہ اس کی اور اس کے رفقاء کی سرداری وسربراہی کے لیے میدان صاف ہو جائے گا۔
قریب تھا کہ یہ منافق اپنے بعض مقاصد کی برآری میں کامیاب ہو جاتا، کیونکہ مزید دو جماعتوں یعنی قبیلہ اوس میں سے بنوحارثہ اور قبیلہ خزرج میں سے بنوسلمہ کے قدم بھی اکھڑ چکے تھے اور وہ واپسی کی سوچ رہے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دستگیری کی اور یہ دونوں جماعتیں اضطراب اور ارادۂ واپسی کے بعد جم گئیں۔
بہر حال منافقین نے واپسی کا فیصلہ کیا تو اس نازک ترین موقعے پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ نے انہیں ان کا فرض یاد دلانا چاہا، چنانچہ موصوف انہیں ڈانٹتے ہوئے، واپسی کی ترغیب دیتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلے کہ آؤ! اللہ کی راہ میں لڑو یا دفاع کرو، مگر انہوں نے جواب میں کہا: "اگر ہم جانتے کہ آپ لوگ لڑائی کریں گے تو ہم واپس نہ ہوتے۔" یہ جواب سن کر حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ "او اللہ کے دشمنو! تم پر اللہ کی مار، یاد رکھو! اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم سے مستغنی کردے گا۔"
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں