سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 158
نبی ﷺ کی شہادت کی خبر اور لشکر پر اس کا برا اثر:
ابن قمئہ کے اس اعلان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی خبر مسلمانوں اور مشرکین دونوں میں پھیل گئی اور یہی وہ نازک ترین لمحہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الگ تھلگ نرغے کے اندر آئے ہوئے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوصلے ٹوٹ گئے، ان کے عزائم سرد پڑ گئے اور ان کی صفیں اتھل پتھل اور بد نظمی وانتشار کا شکار ہوگئیں۔
مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی یہی خبر اس حیثیت سے مفید ثابت ہوئی کہ اس کے بعد مشرکین کے پُرجوش حملوں میں کسی قدر کمی آگئی، کیونکہ وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا آخری مقصد پورا ہوچکا ہے، چنانچہ اب بہت سے مشرکین نے حملہ بند کرکے مسلمان شہداء کی لاشوں کا مُثلہ کرنا شروع کردیا۔
حضرت مُصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیا، انہوں نے جم کر لڑائی کی، وہاں پر موجود باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بے مثال جانبازی وسرفروشی کے ساتھ دفاع اور حملہ کیا، جس سے بالآخر اس بات کا امکان پیدا ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین کی صفیں چیر کر نرغے میں آئے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب راستہ بنائیں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم آگے بڑھایا اور صحابہ کرام کی جانب تشریف لائے، سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانا، خوشی سے چیخ پڑے کہ "مسلمانو! خوش ہوجاؤ، یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ خاموش رہو، تاکہ مشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی اور مقام موجودگی کا پتہ نہ لگ سکے، مگر ان کی آواز مسلمانوں کے کان تک پہنچ چکی تھی، چنانچہ مسلمان آپ کی پناہ میں آنا شروع ہوگئے اور رفتہ رفتہ تقریباً تیس صحابہ جمع ہوگئے۔
جب اتنی تعداد جمع ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کی گھاٹی یعنی کیمپ کی طرف ہٹنا شروع کیا، مگر چونکہ اس واپسی کے معنی یہ تھے کہ مشرکین نے مسلمانوں کو نرغے میں لینے کی جو کارروائی کی تھی وہ بے نتیجہ رہ جائے، اس لیے مشرکین نے اس واپسی کو ناکام بنانے کے لیے اپنے تابڑ توڑحملے جاری رکھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان حملہ آوروں کا ہجوم چیر کر راستہ بنا ہی لیا اور شیرانِ اسلام کی شجاعت وشہ زوری کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔
اسی اثناء میں مشرکین کا ایک اڑیل شہسوار "عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ" یہ کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب بڑھا کہ "یا تو میں رہوں گا یا وہ رہے گا".... ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ٹھہر گئے مگر مقابلے کی نوبت نہ آئی، کیونکہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے میں گر گیا اور اتنے میں حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس پہنچ کر اسے للکارا اور اس کے پاؤں پر اس زور کی تلوار ماری کہ وہیں بٹھا دیا، پھر اس کا کام تمام کرکے اس کا ہتھیار لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آگئے، مگر اتنے میں مکی فوج کے ایک دوسرے سوار "عبداللہ بن جابر" نے پلٹ کر حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا اور ان کے کندھے پر تلوار مار کر زخمی کردیا، مگر مسلمانوں نے لپک کر انہیں اٹھا لیا۔
کرشمۂ قدرت دیکھیے کہ اسی خونریز مار دھاڑ کے دوران مسلمانوں کو نیند کی جھپکیاں بھی آرہی تھیں اور جیسا کہ قرآن نے بتلایا ہے، یہ اللہ کی طرف سے امن وطمانیت تھی، طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جن پر اُحد کے روز نیند چھا رہی تھی، یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کئی بار تلوار گرگئی، حالت یہ تھی کہ وہ گرتی تھی اور میں پکڑتا تھا، پھر گرتی تھی اور پھر پکڑتا تھا۔ (صحیح بخاری ۲/۵۸۲)
خلاصہ یہ کہ اس طرح کی جانبازی وجان سپاری کے ساتھ یہ دستہ منظم طور سے پیچھے ہٹتا ہوا پہاڑ کی گھاٹی میں واقع کیمپ تک جا پہنچا اور بقیہ لشکر کے لیے بھی اس محفوظ مقام تک پہنچنے کا راستہ بنادیا، چنانچہ باقی ماندہ لشکر بھی اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آگیا اور خالد بن ولید کی فوجی عبقریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوجی عبقریت کے سامنے ناکام ہوگئی۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں