سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 151
غزوۂ احد (شوال۳ہجری):
ادھر قریشی عورتیں بھی جنگ میں اپنا حصہ ادا کرنے اٹھیں، ان کی قیادت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ کر رہی تھی، ان عورتوں نے صفوں میں گھوم گھوم کر اور دف پیٹ پیٹ کر لوگوں کو جوش دلایا، لڑائی کے لیے بھڑ کایا، جانبازوں کو غیرت دلائی اور نیزہ بازی وشمشیر زنی، مار دھاڑ اور تیر افگنی کے لیے جذبات کو بر انگیختہ کیا، کبھی وہ علمبرداروں کو مخاطب کر کے یوں کہتیں، "دیکھو عبد الدار دیکھو! پشت کے پاسدار، خوب کرو شمشیر کا وار..!
اور کبھی اپنی قوم کو لڑائی کا جوش دلاتے ہوئے یوں کہتیں: "اگر پیش قدمی کرو گے تو ہم گلے لگائیں گی اور قالینیں بچھائیں گی اور اگر پیچھے ہٹو گے تو روٹھ جائیں گی اور الگ ہوجائیں گی۔"
اس کے بعد دونوں فریق بالکل آمنے سامنے اور قریب آگئے اور لڑائی کا مرحلہ شروع ہوگیا، جنگ کا پہلا ایندھن مشرکین کا علمبردار طلحہ بن ابی طلحہ عبدری بنا۔
یہ شخص قریش کا نہایت بہادر شہسوار تھا، اسے مسلمان کبش الکتیبہ (لشکر کا مینڈھا) کہتے تھے، یہ اونٹ پر سوار ہوکر نکلا اور مُبارزت کی دعوت دی، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ایک لمحہ کی مہلت دیئے بغیر شیر کی طرح جست لگا کر اونٹ پر جا چڑھے، پھر اسے اپنی گرفت میں لے کر زمین پر کود گئے اور تلوار سے ذبح کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ولولہ انگیز منظر دیکھا تو فرطِ مسرت سے نعرۂ تکبیر بلند کیا، مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر لگایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تعریف کی۔
اس کے بعد ہر طرف جنگ کے شُعلے بھڑک اُٹھے اور پورے میدان میں پُر زور مار دھاڑ شروع ہوگئی، مشرکین کا پرچم معرکے کا مرکزِ ثقل تھا، بنو عبدالدار نے اپنے کمانڈر طلحہ بن ابی طلحہ کے قتل کے بعد یکے بعد دیگرے پرچم سنبھالا، لیکن سب کے سب مارے گئے، سب سے پہلے طلحہ کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ نے پرچم اٹھایا اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا: "پرچم والوں کا فرض ہے کہ نیزہ (خون سے) رنگین ہوجائے یا ٹوٹ جائے۔''
اس شخص پر حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا اور اس کے کندھے پر ایسی تلوار ماری کہ وہ ہاتھ سمیت کندھے کو کاٹتی اور جسم کو چیرتی ہوئی ناف تک جا پہنچی، یہاں تک کہ پھیپھڑا دکھائی دینے لگا۔
اس کے بعد ابو سعد بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھایا، اس پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تیر چلایا اور وہ ٹھیک اس کے گلے میں لگا، جس سے اس کی زبا ن باہر نکل آئی اور وہ اسی وقت مر گیا، بعض سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ ابوسعد نے باہر نکل کر دعوتِ مُبارزت دی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر مقابلہ کیا، دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار کا ایک وار کیا، لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو سعد کو مارلیا۔
اس کے بعد مسافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھا لیا، لیکن اسے عاصم بن ثابت بن ابی افلح رضی اللہ عنہ نے تیر مارکر قتل کردیا، اس کے بعد اس کے بھائی کلاب بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھایا، مگر اس پر حضرت زُبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ٹوٹ پڑے اور لڑ بھڑ کر اس کا کام تمام کردیا، پھر ان دونوں کے بھائی جلاس بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اٹھایا، مگر اسے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے نیزہ مار کر ختم کردیا اور کہا جاتا ہے کہ عاصم بن ثابت بن ابی افلح رضی اللہ عنہ نے تیر مار کر ختم کیا۔
یہ ایک ہی گھر کے چھ افراد تھے، یعنی سب کے سب ابوطلحہ عبداللہ بن عثمان بن عبدالدار کے بیٹے یا پوتے تھے، جو مشرکین کے جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے، اس کے بعد قبیلہ بنی عبدالدار کے ایک اور شخص اَرطاۃ بن شرحبِیل نے پرچم سنبھالا، لیکن اسے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا، اس کے بعد شریح بن قارظ نے جھنڈا اٹھایا، مگر اسے قزمان نے قتل کردیا، قزمان منافق تھا اور اسلام کے بجائے قبائلی حمیت کے جوش میں مسلمانوں کے ہمراہ لڑنے آیا تھا۔
شریح کے بعد ابو زید بن عمرو بن عبد مناف عبدری نے جھنڈا سنبھالا، مگر اسے بھی قزمان نے ٹھکانے لگا دیا، پھر شرحبیل بن ہاشم عبدری کے ایک لڑکے نے جھنڈا اٹھایا، مگر وہ بھی قزمان کے ہاتھوں مارا گیا۔
یہ بنو عبدالدار کے دس افراد ہوئے جنہوں نے مشرکین کا جھنڈا اٹھایا اور سب کے سب مارے گئے، اس کے بعد اس قبیلے کا کوئی آدمی باقی نہ بچا جو جھنڈا اٹھاتا، لیکن اس موقعے پر ان کے ایک حبشی غلام نے جس کا نام صواب تھا، لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور ایسی بہادری اور پامردی سے لڑا کہ اپنے سے پہلے جھنڈا اٹھانے والے اپنے آقاؤں سے بھی بازی لے گیا، اس غلام (صواب) کے قتل کے بعد جھنڈا زمین پر گر گیا اور اِسے کوئی اٹھانے والا باقی نہ بچا، اس لیے وہ گرا ہی رہا۔
ایک طرف مشرکین کا جھنڈا معرکے کا مرکزِ ثقل تھا تو دوسری طرف میدان کے بقیہ حصوں میں بھی شدید جنگ جاری تھی، مسلمانوں کی صفوں پر ایمان کی رُوح چھائی ہوئی تھی، اس لیے وہ شرک وکفر کے لشکر پر اس سیلاب کی طرح ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کے سامنے کوئی بند ٹھہر نہیں پاتا، مسلمان اس موقعے پر اَمِتْ اَمِت کہہ رہے تھے اور اس جنگ میں یہی ان کا شعار تھا۔
ادھر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سُرخ پٹی باندھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار تھامے اور اس کے حق کی ادائیگی کا عزم مصمم کیے پیش قدمی کی اور لڑتے ہوئے دور تک جا گھسے، وہ جس مشرک سے ٹکراتے اس کا صفایا کردیتے، انہوں نے مشرکین کی صفوں کی صفیں اُلٹ دیں۔
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تلوار مانگی اور آپ نے مجھے نہ دی تو میرے دل پر اس کا اثر ہوا اور میں نے اپنے جی میں سوچا کہ میں آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹا ہوں، قریشی ہوں اور میں نے آپ کے پاس جا کر ابو دجانہ سے پہلے تلوار مانگی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نہ دی اور انہیں دے دی، اس لیے واللہ! میں دیکھوں گا کہ وہ اس سے کیا کام لیتے ہیں، چنانچہ میں ان کے پیچھے لگ گیا، انہوں نے یہ کیا کہ پہلے اپنی سرخ پٹی نکالی اور سر پر باندھی، اس پر انصار نے کہا کہ: "ابو دُجانہ نے موت کی پٹی نکال لی ہے، " پھر وہ یہ کہتے ہوئے میدان کی طرف بڑھے۔
''میں نے اس نخلستان کے دامن میں اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد کیا ہے کہ کبھی صفوں کے پیچھے نہ رہوں گا، (بلکہ آگے بڑھ کر ) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار چلاؤں گا۔"
اس کے بعد انہیں جو بھی مل جاتا اسے قتل کردیتے، ادھر مشرکین میں ایک شخص تھا جو ہمارے کسی بھی زخمی کو پا جاتا تو اس کا خاتمہ کر دیتا تھا، یہ دونوں رفتہ رفتہ قریب ہو رہے تھے، میں نے اللہ سے دعا کی کہ دونوں میں ٹکر ہوجائے اور واقعتا ٹکر ہوگئی۔
دونوں نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، پہلے مشرک نے ابو دجانہ پر تلوار چلائی، لیکن ابو دجانہ نے یہ حملہ ڈھال پر روک لیا اور مشرک کی تلوار ڈھال میں پھنس کر رہ گئی، اس کے بعد ابودجانہ نے تلوار چلائی اور مشرک کو وہیں ڈھیر کردیا۔ ( ابن ہشام ۲/۶۸، ۶۹)
اس کے بعد ابو دجانہ رضی اللہ عنہ صفوں پر صفیں درہم برہم کرتے ہوئے آگے بڑھے، یہاں تک کہ قریشی عورتوں کی کمانڈر تک جا پہنچے، انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ عورت ہے، چنانچہ ان کا بیان ہے کہ میں نے ایک انسان کو دیکھا، وہ لوگوں کو بڑے زور وشور سے جوش وولولہ دلارہا تھا، اس لیے میں نے اس کو نشانے پر لے لیا، لیکن جب تلوار سے حملہ کرنا چاہا تو اس نے ہائے پکار مچائی اور پتہ چلا کہ عورت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار کو بٹہ نہ لگنے دیا کہ اس سے کسی عورت کو ماروں۔
یہ عورت ہند بنت عتبہ تھی، چنانچہ حضرت زُبیر بن عوام کا بیان ہے کہ میں نے ابو دجانہ کو دیکھا کہ انہوں نے ہند بنت عتبہ کے سر کے بیچوں بیچ تلوار بلند کی اور پھر ہٹالی، میں نے کہا: "اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں (کہ تلوار کا حقدار کون اور کیوں تھا)۔ ( ابنِ ہشام ۲/۶۹)
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی مولانا ادریس کاندھلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں