سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 168


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 168

بئرِ معونہ کا المیہ:

جس مہینے رجیع کا حادثہ پیش آیا، ٹھیک اسی مہینے بئرمعونہ کا المیہ بھی پیش آیا جو رجیع کے حادثہ سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔

اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو براء عامر بن مالک جو مُلاعِب ُالاسُنّہ (نیزوں سے کھیلنے والا) کے لقب سے مشہور تھا، مدینہ خدمت نبوی میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی، اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا لیکن دُوری بھی اختیار نہیں کی، اس نے کہا: "اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اگر آپ اپنے اصحاب کو دعوتِ دین کے لیے اہلِ نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اپنے صحابہ کے متعلق اہلِ نجد سے خطرہ ہے۔"
ابو براء نے کہا: "وہ میری پناہ میں ہوں گے۔" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ستر آدمیوں کو بھیج دیا اور منذر بن عَمرو رضی اللہ عنہ کو جو بنو ساعدہ سے تعلق رکھتے تھے اور ''معتق للموت'' (موت کے لیے آزاد کردہ) کے لقب سے مشہور تھے، ان کا امیر بنا دیا۔

یہ لوگ فضلاء، قراء اور سادات و اخیارِ صحابہ تھے، دن میں لکڑیاں کاٹ کر اس کے عوض اہل صُفّہ کے لیے غلہ خریدتے اور قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے اور رات میں اللہ کے حضور مناجات ونماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، اس طرح چلتے چلاتے معونہ کے کنوئیں پر جا پہنچے، یہ کنواں بنو عامر اور حرہ بنی سلیم کے درمیان ایک زمین میں واقع ہے، وہاں پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمِ سُلیم کے بھائی حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط دے کر اللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا، لیکن اس نے خط کو دیکھا تک نہیں اور ایک آدمی کو اشارہ کر دیا جس نے حضرت حرام رضی اللہ عنہ کو پیچھے سے اس زور کا نیزہ مارا کہ وہ نیزہ آر پار ہوگیا، خون دیکھ کر حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ اکبر! ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔"

اس کے بعد فوراً ہی اس اللہ کے دشمن عامر نے باقی صحابہ پر حملہ کرنے کے لیے اپنے قبیلہ بنی عامر کو آواز دی، مگر انہوں نے ابو براء کی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے۔

ادھر سے مایوس ہو کر اس شخص نے بنو سلیم کو آواز دی، بنو سلیم کے تین قبیلوں عصیہ، رعل اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا اور جھٹ آ کر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاصرہ کرلیا، جواباً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہوگئے، صرف حضرت کعب بن زید بن نجار رضی اللہ عنہ زندہ بچے، انہیں شہداء کے درمیان سے زخمی حالت میں اٹھا لایا گیا اور وہ جنگ خندق تک حیات رہے۔

ان کے علاوہ مزید دو صحابہ حضرت عَمرو بن امیہ ضمری اور حضرت مُنذر بن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما اونٹ چرا رہے تھے، انہوں نے جائے واردات پر چڑیوں کو منڈلاتے دیکھا تو سیدھے جائے واردات پر پہنچے، پھر حضرت منذر رضی اللہ عنہ تو اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو قید کرلیا گیا، لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ ٔ مُضَر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹوا کر اپنی ماں کی طرف سے جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی نذر تھی، آزاد کردیا۔

حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اللہ عنہ اس دردناک المیے کی خبر لے کر مدینہ پہنچے، اس المیے نے جنگ اُحد کا چرکہ تازہ کر دیا اور وہ بھی اس فرق کے ساتھ کہ شہداء احد تو ایک کھُلی ہوئی اور دو بدو جنگ میں مارے گئے تھے، مگر یہ بیچارے ایک شرمناک غداری کی نذر ہوگئے۔ (صحیح بخاری ۲/۵۸۴ ، ۵۸۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معونہ اور رجیع کے ان المناک واقعات سے جو چند ہی دن آگے پیچھے پیش آئے تھے، اس قدر رنج پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر غمگین ودل فگار ہوئے کہ جن قوموں اور قبیلوں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غدر وقتل کا یہ سلوک کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ایک مہینے تک بددعا فرمائی۔

چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو بئر معونہ پر شہید کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر تیس روز تک بددعا کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر میں رعل، ذکوان لحیان اور عُصَیَّہ پر بددعا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کی۔ (صحیح بخاری ۲/۵۸۶، ۵۸۷، ۵۸۸)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں