سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 149
اسلامی لشکر احد کے دامن میں:
منافقین کی بغاوت اور واپسی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باقی ماندہ لشکر کو لے کر جس کی تعداد سات سو تھی، دشمن کی طرف قدم بڑھایا، دشمن کا پڑاؤ آپ کے درمیان اور اُحد کے درمیان کئی سمت سے حائل تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا کہ کوئی آدمی ہے جو ہمیں دشمن کے پاس سے گزرے بغیر کسی قریبی راستے سے لے چلے۔
اس کے جواب میں ابو خیْثَمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں۔'' پھر انہوں نے ایک مختصر سا راستہ اختیار کیا جو مشرکین کے لشکر کو مغرب کی سمت چھوڑتا ہوا بنی حارثہ کے حرہ اور کھیتوں سے گزرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر وادی کے آخری سرے پر واقع اُحد پہاڑ کی گھاٹی میں نزول فرمایا اور وہیں اپنے لشکر کا کیمپ لگوایا، سامنے مدینہ تھا اور پیچھے اُحد کا بلند وبالا پہاڑ، اس طرح دشمن کا لشکر مسلمانوں اور مدینے کے درمیان حد فاصل بن گیا۔
یہاں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کی ترتیب وتنظیم قائم کی اور جنگی نقطۂ نظر سے اسے کئی صفوں میں تقسیم فرمایا، ماہر تیر اندازوں کا ایک دستہ بھی منتخب کیا جو پچاس مردان جنگی پر مشتمل تھا، ان کی کمان حضرت عبداللہ بن جبیر بن نعمان انصاری دَوْسی بدری رضی اللہ عنہ کو سپرد کی اور انہیں وادی قناۃ کے جنوبی کنارے پر واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو اسلامی لشکر کے کیمپ سے کوئی ڈیڑھ سو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے اور اب جبل رماۃ کے نام سے مشہور ہے، تعینات فرمایا، اس کا مقصد ان کلمات سے واضح ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تیر اندازوں کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کمانڈر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ''شہسواروں کو تیر مار کر ہم سے دور رکھو، وہ پیچھے سے ہم پر چڑھ نہ آئیں، ہم جیتیں یا ہاریں، تم اپنی جگہ رہنا، تمہاری طرف سے ہم پر حملہ نہ ہونے پائے۔'' (ابنِ ہشام ۲/۶۵ ، ۶۶)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیراندازوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ''ہماری پشت کی حفاظت کرنا، اگر دیکھو کہ ہم مارے جا رہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر دیکھو کہ ہم مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔" (احمد، طبرانی، حاکم، عن ابن عباس۔ دیکھئے! فتح الباری ۷/۳۵۰)
اور صحیح بخاری کے الفاظ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا: ''اگر تم لوگ دیکھو کہ ہمیں پرندے اچک رہے ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں اور اگر تم لوگ دیکھو کہ ہم نے قوم کو شکست دے دی ہے اور انہیں کچل دیا ہے تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں۔'' (صحیح بخاری , کتاب الجہاد ۱/۴۲۶)
ان سخت ترین فوجی احکامات وہدایات کے ساتھ اس دستے کو اس پہاڑی پر متعین فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ واحد شگاف بند فرما دیا جس سے نفوذ کرکے مشرکین کا رسالہ مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے پہنچ سکتا تھا اور ان کو محاصرے اور نرغے میں لے سکتا تھا۔
باقی لشکر کی ترتیب یہ تھی کہ مَیمنہ پر حضرت منْذر بن عَمرو رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اور میْسرہ پر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور ان کا معاون حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ مہم بھی سونپی گئی کہ وہ خالد بن ولید کے شہسواروں کی راہ روکے رکھیں، اس ترتیب کے علاوہ صف کے اگلے حصے میں ایسے ممتاز اور منتخب بہادر مسلمان رکھے گئے جس کی جانبازی ودلیری کا شہرہ تھا اور جنہیں ہزاروں کے برابر مانا جاتا تھا۔
یہ منصوبہ بڑی باریکی اور حکمت پر مبنی تھا، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوجی قیادت کی عبقریت کا پتہ چلتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کمانڈر خواہ کیسا ہی بالیاقت کیوں نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ باریک اور باحکمت منصوبہ تیار نہیں کرسکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باوجودیکہ دشمن کے بعد یہاں تشریف لائے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر کے لیے وہ مقام منتخب فرمایا جو جنگی نقطۂ نظر سے میدانِ جنگ کا سب سے بہترین مقام تھا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کی بلندیوں کی اوٹ لے کر اپنی پُشت اور دایاں بازو محفوظ کرلیا اور بائیں بازو دورانِ جنگ جس واحد شگاف سے حملہ کرکے پُشت تک پہنچا جاسکتا تھا، اسے تیر اندازوں کے ذریعے بند کردیا اور پڑاؤ کے لیے ایک اونچی جگہ منتخب فرمائی کہ اگر خدانخواستہ شکست سے دوچار ہونا پڑے تو بھا گنے اور تعاقب کنندگان کی قید میں جانے کے بجائے کیمپ میں پناہ لی جاسکے اور اگر دشمن کیمپ پرقبضے کے لیے پیش قدمی کرے تو اسے نہایت سنگین خسارہ پہنچایا جا سکے۔
اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کو اپنے کیمپ کے لیے ایک ایسا نشیبی مقام قبول کرنے پر مجبور کردیا کہ اگر وہ غالب آجائے تو فتح کا کوئی خاص فائدہ نہ اُٹھا سکے اور اگر مسلمان غالب آجائیں تو تعاقب کرنے والوں کی گرفت سے بچ نہ سکے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ممتاز بہادروں کی ایک جماعت منتخب کرکے فوجی تعداد کی کمی پوری کردی۔
یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر کی ترتیب وتنظیم تھی، جو ۷ / شوال ۳ ھ یوم سنیچر کی صبح عمل میں آئی۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں