سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 157
مشرکین کے دباؤ میں اضافہ:
ادھر مشرکین کی تعداد بھی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی، جس کے نتیجے میں ان کے حملے سخت ہوتے جارہے تھے اور ان کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابوعامر فاسق کے شرارت کے لیے کھودے گئے چند گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں جا گرے، اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھُٹنا موچ کھا گیا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ تھاما اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے (جو خود بھی زخموں سے چُور تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آغوش میں لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برابر کھڑے ہوسکے۔
نافع بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "میں نے ایک مہاجر صحابی کو سنا، فرمارہے تھے: "میں جنگ اُحد میں حاضر تھا، میں نے دیکھا کہ ہر جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تیر برس رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیروں کے بیچ میں ہیں، لیکن سارے تیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھیر دیے جاتے ہیں (یعنی آگے گھیرا ڈالے ہوئے صحابہ انہیں روک لیتے تھے) اور میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن شہاب زہری کہہ رہا تھا: "مجھے بتاؤ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہے؟ اب یا تو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔" حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بازو میں تھے، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نکل گیا، اس پر صفوان نے اسے ملامت کی، جواب میں اس نے کہا: "واللہ! میں نے اسے دیکھا ہی نہیں، اللہ کی قسم! وہ ہم سے محفوظ کردیا گیا ہے، اس کے بعد ہم چار آدمی یہ عہد وپیمان کر کے نکلے کہ انہیں قتل کردیں گے، لیکن ان تک پہنچ نہ سکے۔ ( زاد المعاد ۲/۹۷)
بہرحال اس موقع پر مسلمانوں نے ایسی نادرۂ روزگار جانبازی اور تابناک قربانیوں سے کام لیا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی، چنانچہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے سپر بنا لیا، وہ اپنا سینہ اوپر اٹھا لیا کرتے تھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دشمن کے تیروں سے محفوظ رکھ سکیں، وہ ماہر تیر انداز تھے، بہت کھینچ کر تیر چلاتے تھے، چنانچہ اس دن دو یا تین کمانیں توڑ ڈالیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے کوئی آدمی تیروں کا ترکش لیے گزرتا تو آپ فرماتے کہ انہیں طلحہ کے لیے بکھیر دو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قوم کی طرف سر اٹھا کر دیکھتے تو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے: میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر اٹھا کر نہ جھانکیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوم کا کوئی تیر نہ لگ جائے، میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے ہے۔ ( صحیح بخاری ۲/۵۸۱)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت ایک ہی ڈھال سے بچاؤ کررہے تھے، طلحہ رضی اللہ عنہ بہت اچھے تیر انداز تھے، جب وہ تیر چلاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گردن اٹھا کر دیکھتے کہ ان کا تیر کہاں گرا۔ (صحیح بخاری / ۴۰۶)
حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے کھڑے ہوگئے اور اپنی پیٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ڈھال بنادیا، ان پر تیر پڑ رہے تھے، لیکن وہ ہلتے نہ تھے۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے عُتبہ بن وقاص کا پیچھا کیا، جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دندان مبارک شہید کیا تھا اور اسے اس زور کی تلوار ماری کہ اس کا سر چھٹک گیا، پھر اس کے گھوڑے اور تلوار پر قبضہ کرلیا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بہت زیادہ خواہاں تھے کہ اپنے اس بھائی (عُتبہ) کو قتل کریں مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے، بلکہ یہ سعادت حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی قسمت میں تھی۔
حضرت سَہل بن حُنیف رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی تیر چلارہے تھے، چنانچہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کمان سے اتنے تیر چلائے کہ اس کا کنارہ ٹوٹ گیا، پھر اس کمان کو حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور وہ انہیں کے پاس رہی۔
اس روز یہ واقعہ بھی ہوا کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ چوٹ کھا کر چہرے پر ڈھلک آئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے پپوٹے کے اندر داخل کردی، اس کے بعد ان کی دونوں آنکھوں میں یہی زیادہ خوبصورت لگتی تھی اور اسی کی بینائی زیادہ تیز تھی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لڑتے لڑتے منہ میں چوٹ کھائی جس سے ان کا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا اور انہیں بیس یا بیس سے زیادہ زخم آئے جن میں سے بعض زخم پاؤں میں لگے اور وہ لنگڑے ہوگئے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے والد مالک بن سنان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے سے خون چوس کر صاف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اسے تھوک دو۔" انہوں نے کہا: "واللہ! اسے تو میں ہرگز نہ تھوکوں گا۔" اس کے بعد پلٹ کر لڑنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہو، وہ انہیں دیکھے۔" اس کے بعد وہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
ایک نادر کارنامہ خاتون صحابیہ حضرت ام عمارہ نُسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا نے انجام دیا، وہ چند مسلمانوں کے درمیان لڑتی ہوئی ابن قمئہ کے سامنے اڑگئیں، ابن قمئہ نے ان کے کندھے پر ایسی تلوار ماری کہ گہرا زخم ہوگیا، انہوں نے بھی ابن قمئہ کو اپنی تلوار کی کئی ضرب لگائی، لیکن کمبخت دو زِرہیں پہنے ہوئے تھا اس لیے بچ گیا، حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے لڑتے بھڑتے بارہ زخم کھائے۔
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابن قمئہ اور اس کے ساتھیوں کے پے در پے حملوں کا دفاع کررہے تھے، انہی کے ہاتھ میں اسلامی لشکر کا پھریرا تھا، ظالموں نے ان کے داہنے ہاتھ پر اس زور کی تلوار ماری کہ ہاتھ کٹ گیا، اس کے بعد انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا پکڑ لیا اور کفار کے مدمقابل ڈٹے رہے، بالآخر ان کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا، اس کے بعد انہوں نے جھنڈے پر گھٹنے ٹیک کر اسے سینے اور گردن کے سہارے لہرائے رکھا اور اسی حالت میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
ان کا قاتل ابن قمئہ تھا، وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم شکل تھے، چنانچہ وہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے مشرکین کی طرف واپس چلاگیا اور چلا ّچلاّ کر اعلان کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کر دیئے گئے۔ (ابن ہشام ۲/۷۳، ۸۰- ۸۳ زادالمعاد ۲/۹۷)
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں