سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 150


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 150

اہل ایمان میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جب تک آپ حکم نہ دیں، جنگ شروع نہ کی جائے، صحابہ کرام کو جنگ کی ترغیب دیتے ہوئے تاکید فرمائی کہ جب دشمن سے ٹکراؤ ہو تو پامردی اور اولوالعزمی سے کام لیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں دلیری اور بہادری کی روح پھُونکتے ہوئے ایک نہایت تیز تلوار بے نیام کی اور فرمایا: "کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے؟"

اس پر کئی صحابہ تلوار لینے کے لیے لپک پڑے، جن میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، ابو دُجانہ سِماک بن خَرْشہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر عرض کی کہ: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس کا حق کیا ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اس سے دشمن کے چہرے کو مارو! یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہوجائے۔"
انہوں نے کہا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرنا چاہتا ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلوار انہیں دے دی۔

ابو دجانہ رضی اللہ عنہ بڑے جانباز تھے، لڑائی کے وقت اکڑ کر چلتے تھے، ان کے پاس ایک سُرخ پٹی تھی، جب اُسے باندھ لیتے تو لوگ سمجھ جاتے کہ وہ اب موت تک لڑتے رہیں گے، چنانچہ جب انہوں نے تلوار لی تو سر پر پٹی بھی باندھ لی اور فریقین کی صفوں کے درمیان اکڑ کر چلنے لگے، یہی موقع تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ چال اللہ کو ناپسند ہے، لیکن اس جیسے موقع پر نہیں۔

مشرکین نے بھی صف بندی ہی کے اصول پر اپنے لشکر کو مرتب اور منظم کیا تھا، ان کے سپہ سالار ابوسفیان تھے جنہوں نے قلب لشکر میں اپنا مرکز بنایا تھا، مَیمنہ پر خالد بن ولید تھے جو ابھی مشرک تھے، مَیْسرہ پر عکرمہ بن ابی جہل تھے، یہ بھی ابھی مشرک تھے، پیدل فوج کی کمان صفوان بن امیہ کے پاس تھی اور تیر اندازوں پر عبداللہ بن ربیعہ مقرر ہوئے۔

جھنڈا عبدالدار کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ہاتھ میں تھا، یہ منصب انہیں اسی وقت سے حاصل تھا جب بنو عبد مناف نے قُصی سے وراثت میں پائے ہوئے مناصب کو باہم تقسیم کیا تھا، جس کی تفصیل ابتدائے کتاب میں گزر چکی ہے، پھر باپ دادا سے جو دستور چلا آرہا تھا اس کے پیش نظر کوئی شخص اس منصب کے بارے میں ان سے نزاع بھی نہیں کرسکتا تھا۔

لیکن سپہ سالار ابو سفیان نے انہیں یاد دلایا کہ جنگ بدر میں ان کا پرچم بردار نضر بن حارث گرفتار ہوا تو قریش کو کن حالات سے دوچار ہونا پڑا تھا، اس بات کو یاد دلانے کے ساتھ ہی ان کا غصہ بھڑکانے کے لیے کہا: "اے بنی عبدالدار! بدر کے روز آپ لوگوں نے ہمارا جھنڈا لے رکھا تھا تو ہمیں جن حالات سے دوچار ہونا پڑا وہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے، درحقیقت فوج پر جھنڈے ہی کے جانب سے زد پڑتی ہے، جب جھنڈا گر پڑتا ہے تو فوج کے قدم اکھڑ جاتے ہیں، پس اب کی بار آپ لوگ یا تو ہمارا جھنڈا ٹھیک طور سے سنبھالیں یا ہمارے اور جھنڈے کے درمیان سے ہٹ جائیں، ہم اس کا انتظام خود کرلیں گے۔"

اِ س گفتگو سے ابوسفیان کا جو مقصد تھا اس میں وہ کامیاب رہے، ان کی بات سن کر بنی عبدالدار کو سخت تاؤ آیا، انہوں نے دھمکیاں دیں، معلوم ہوتا تھا کہ ان پر پل پڑیں گے، کہنے لگے: "ہم اپنا جھنڈا تمہیں دیں گے؟ کل جب ٹکر ہوگی تو دیکھ لینا، ہم کیا کرتے ہیں۔" اور واقعی جب جنگ شروع ہوئی تو وہ نہایت پامردی کے ساتھ جمے رہے، یہاں تک کہ ان کا ایک ایک آدمی لقمۂ اجل بن گیا۔

آغاز جنگ سے کچھ پہلے قریش نے مسلمانوں کی صف میں پھوٹ ڈالنے اور نزاع پیدا کرنے کی کوشش کی، اس مقصد کے لیے ابو سفیان نے انصار کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگ ہمارے اور ہمارے چچیرے بھائی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیچ سے ہٹ جائیں تو ہمارا رُخ بھی آپ کی طرف نہ ہوگا، کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن جس ایمان کے آگے پہاڑ بھی نہیں ٹھہر سکتے اس کے آگے یہ چال کیونکر کامیاب ہوسکتی تھی، چنانچہ انصار نے اسے نہایت سخت جواب دیا اور کڑوی کسیلی سنائی۔

پھر وقت صفر قریب آگیا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کے قریب آگئیں تو قریش نے اس مقصد کے لیے ایک اور کوشش کی، ان کا ایک خیانت کوش آلۂ کار ابو عامر فاسق مسلمانوں کے سامنے نمودار ہوا۔

اس شخص کا نام عبد عمرو بن صیفی تھا اور اسے راہب کہا جاتا تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام فاسق رکھ دیا، یہ جاہلیت میں قبیلۂ اوس کا سردار تھا، لیکن جب اسلام کی آمد آمد ہوئی تو اسلام اس کے گلے کی پھانس بن گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کھل کر عداوت پراُتر آیا، چنانچہ وہ مدینہ سے نکل کر قریش کے پاس پہنچا اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بھڑکا بھڑکا کر آمادۂ جنگ کیا اور یقین دلایا کہ میری قوم کے لوگ مجھے دیکھیں گے تو میری بات مان کر میرے ساتھ ہوجائیں گے۔

چنانچہ یہ پہلا شخص تھا جو میدان اُحد میں احابیش اور اہل مکہ کے غلاموں کے ہمراہ مسلمانوں کے سامنے آیا اور اپنی قوم کو پکار کر اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا: "قبیلہ اوس کے لوگو! میں ابو عامر ہوں۔" ان لوگوں نے کہا: "او فاسق! اللہ تیر ی آنکھ کو خوشی نصیب نہ کرے۔"

اس نے یہ جواب سنا تو کہا: "او ہو! میری قوم میرے بعد شر سے دوچار ہوگئی ہے۔" پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو اس شخص نے بڑی پُر زور جنگ کی اور مسلمانوں پر جم کر پتھر برسائے، اس طرح قریش کی جانب سے اہلِ ایمان کی صفوں میں تفرقہ ڈالنے کی دوسری کوشش بھی ناکام رہی، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تعداد کی کثرت اور سازوسامان کی فراوانی کے باوجود مشرکین کے دلوں پر مسلمانوں کا کس قدر خوف اور ان کی کیسی ہیبت طاری تھی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں