سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 152


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 152

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت:

ادھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی بپھرے ہوئے شیر کی طرح جنگ لڑرہے تھے اور بے نظیر مار دھاڑ کے ساتھ قلب لشکر کی طرف بڑھے چڑھے جارہے تھے، ان کے سامنے سے بڑے بڑے بہادر اس طرح بکھر جاتے تھے جیسے ہوا میں پتے اُڑ رہے ہوں، انہوں نے مشرکین کے علمبرداروں کے صفائے میں نمایاں رول ادا کرنے کے علاوہ ان کے بڑے بڑے جانبازوں اور بہادروں کا بھی حال خراب کر رکھا تھا، لیکن صد حیف کہ اسی عالم میں ان کی شہادت واقع ہوگئی، مگر انہیں بہادروں کی طرح رُو در رُو لڑ کر شہید نہیں کیا گیا، بلکہ بزدلوں کی طرح چھپ چھپا کر بے خبری کے عالم میں مارا گیا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی بن حرب تھا، ہم ان کی شہادت کا واقعہ انہی کی زبانی نقل کرتے ہیں۔

ان کا بیان ہے کہ میں جُبیر بن مُطْعم کا غلام تھا اور ان کا چچا طُعیمہ بن عِدِی جنگ بدر میں مارا گیا تھا، جب قریش جنگ احد پر روانہ ہونے لگے تو جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا: "اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حمزہ کو میرے چچا کے بدلے قتل کردو تو تم آزاد ہو۔"

وحشی کا بیان ہے کہ (اس پیش کش کے نتیجے میں) میں بھی لوگوں کے ساتھ روانہ ہوا، میں حبشی آدمی تھا اور حبشیوں کی طرح نیزہ پھینکنے میں ماہر تھا، نشانہ کم ہی چوکتا تھا، جب لوگوں میں جنگ چھڑ گئی تو میں نکل کر حمزہ (رضی اللہ عنہ) کو دیکھنے لگا، میری نگاہیں انہی کی تلاش میں تھیں، بالآخر میں نے انہیں لوگوں کی پہنائی میں دیکھ لیا، وہ خاکستری اونٹ معلوم ہورہے تھے، لوگوں کو درہم برہم کرتے جارہے تھے، ان کے سامنے کوئی چیز ٹک نہیں پاتی تھی۔

واللہ! میں ابھی ان کے ارادے سے تیار ہی ہو رہا تھا اور ایک درخت یا پتھر کی اوٹ میں چھپ کر انہیں قریب آنے کا موقع دینا چاہتا تھا کہ اتنے میں سباع بن عبدالعزیٰ مجھ سے آگے بڑھ کر ان کے پاس جا پہنچا، حمزہ (رضی اللہ عنہ) نے اسے للکارتے ہوئے اس زور کی تلوار ماری کہ گویا اس کا سر تھا ہی نہیں۔

وحشی کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا نیزہ تولا اور جب میری مرضی کے مطابق ہوگیا تو ان کی طرف اچھال دیا، نیزہ ناف کے نیچے لگا اور دونوں پاؤں کے بیچ سے پار ہو گیا۔ انہوں نے میری طرف اٹھنا چاہا، لیکن مغلوب ہوگئے، میں نے ان کو اسی حال میں چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ مر گئے، اس کے بعد میں نے ان کے پاس جا کر اپنا نیزہ نکال لیا اور لشکر میں واپس جاکر بیٹھ گیا، (میرا کام ہوچکا تھا) مجھے ان کے سوا کسی اور سے سروکار نہ تھا، میں نے انہیں محض اس لیے قتل کیا تھا کہ آزاد ہو جاؤں، چنانچہ جب مکہ آیا تو مجھے آزادی مل گئی۔ (ابن ہشام ۲ ٌ/۶۹-۷۲ صحیح بخاری ۲/۵۸۳)

وحشی نے جنگ طائف کے بعد اسلام قبول کیا اور اپنے اسی نیزے سے دور صدیقی میں جنگ یمامہ کے اندر مَسیلمہ کذاب کو قتل کیا، رومیوں کے خلاف جنگ یر موک میں بھی شرکت کی۔

اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شیر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے نتیجے میں مسلمانوں کو جو سنگین خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان پہنچا، اس کے باوجود جنگ میں مسلمانوں ہی کا پلہ بھاری رہا، حضرت ابوبکر وعمر، علی و زبیر، مصعب بن عُمیر، طلحہ بن عبیداللہ، عبداللہ بن جحش، سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، سعد بن ربیع اور نضر بن انس وغیرہ رضی اللہ عنہم نے ایسی پامردی وجانبازی سے لڑائی لڑی کہ مشرکین کے چھکے چھوٹ گئے، حوصلے ٹوٹ گئے اور ان کی قوتِ بازو جواب دے گئی۔

اپنی جان فروش شہبازوں میں ایک اور بزرگ حضرت حَنْظَلۃ الغَسیل رضی اللہ عنہ جو آج ایک نرالی شان سے میدانِ جنگ میں تشریف لائے ہیں، آپ اسی ابو عامر راہب کے بیٹے ہیں جسے بعد میں فاسق کے نام سے شہرت ملی اور جس کا ذکر ہم پچھلے صفحات میں کر چکے ہیں۔

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے ابھی نئی نئی شادی کی تھی، جنگ کی منادی ہوئی تو وہ بیوی سے ہم آغوش تھے آواز سنتے ہی آغوش سے نکل کر جہاد کے لیے رواں دواں ہوگئے اور جب مشرکین کے ساتھ میدانِ کارزار گرم ہوا تو ان کی صفیں چیرتے پھاڑتے ان کے سپہ سالار ابو سفیان تک جا پہنچے اور قریب تھا کہ کام تمام کردیتے، مگر اللہ نے خود ان کے لیے شہادت مقدر کر رکھی تھی، چنانچہ انہوں نے جوں ہی ابو سفیان کو نشانے پر لے کر تلوار بلند کی، شَدّاد بن اوس نے دیکھ لیا اور جھٹ حملہ کردیا، جس سے خود حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔

جبلِ رُماۃ پر جن تیر اندازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعین فرمایا تھا، انہوں نے بھی جنگ کی رفتار مسلمانوں کے موافق چلانے میں بڑا اہم رول ادا کیا، مکی شہسواروں نے خالد بن ولید کی قیادت میں اور ابو عامر فاسق کی مدد سے اسلامی فوج کا بایاں بازو توڑ کر مسلمانوں کی پشت تک پہنچنے اور ان کی صفوں میں کھلبلی مچا کر بھرپور شکست سے دوچار کرنے کے لیے تین بار پُر زور حملے کیے، لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں اس طرح تیروں سے چھلنی کیا کہ ان کے تینوں حملے ناکام ہو گئے۔ ( فتح الباری ۷/۳۴۶)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں