سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 172
غزوہ دومۃ الجندل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن وامان قائم ہوچکا تھا اور پورے اسلامی قلم رو میں اطمینان کی باد بہاری چل رہی تھی، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب کی آخری حدود تک توجہ فرمانے کے لیے فارغ ہوچکے تھے اور اس کی ضرورت بھی تھی، تاکہ حالات پر مسلمانوں کا غلبہ اور کنٹرول رہے اور دوست و دشمن سبھی اس کو محسوس اور تسلیم کریں۔
چنانچہ بدر صغریٰ کے بعد چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان سے مدینے میں قیام فرمایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاعات ملیں کہ شام کے قریب دُوْمۃ الجندل کے گرد آباد قبائل آنے والے قافلوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور وہاں سے گزرنے والی اشیاء لوٹ لیتے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی جمعیت فراہم کرلی ہے۔
ان اطلاعات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرما کر ایک ہزار مسلمانوں کی نفری کے ساتھ کوچ فرمایا، یہ 25 ربیع الاول 5 ھ کا واقعہ ہے، راستہ بتانے کے لیے بنو عذرہ کا ایک آدمی رکھ لیا گیا تھا جس کا نام مذکور تھا۔
دُوْمۃ سرحد شام میں ایک شہر ہے، یہاں سے دمشق کا فاصلہ پانچ رات اور مدینے کا پندرہ رات ہے، قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ باہر نکل گئے ہیں، جہاں تک دومۃ الجندل کے باشندوں کا تعلق ہے تو جس کا جدھر سینگ سمایا بھاگ نکلا، جب مسلمان دومہ کے میدان میں اترے تو کوئی نہ ملا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دن قیام فرما کر ادھر اُدھر متعدد دستے روانہ کیے، لیکن کوئی بھی ہاتھ نہ آیا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پلٹ آئے، اس غزوے میں عُیَینہ بن حصن سے مصالحت بھی ہوئی۔
ان اچانک اور فیصلہ کن اقدامات اور حکیمانہ حزم وتدبر پر مبنی منصوبوں کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلم رو اسلام میں امن وامان بحال کرنے اور صورت حال پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی اور وقت کی رفتار کا رُخ مسلمانوں کے حق میں موڑ لیا اور اُن اندرونی اور بیرونی مشکلاتِ پیہم کی شدت کم کی جو ہر جانب سے انہیں گھیرے ہوئے تھیں۔
چنانچہ منافقین خاموش اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے، یہود کا ایک قبیلہ جلاوطن کردیا گیا، دوسرے قبائل نے حق ہمسائیگی اور عہد وپیمان کے ایفاء کا مظاہرہ کیا، بدو اور اعراب ڈھیلے پڑگئے اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ ٹکرانے سے گریز کیا اور مسلمانوں کو اسلام پھیلانے اور رب العالمین کے پیغام کی تبلیغ کرنے کے مواقع میسر آئے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں