سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 160


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 160

شہیدوں اور زخمیوں کی خبرگیری:

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ان مسلمانوں میں تھا جو گھاٹی سے باہر آئے تھے، میں نے دیکھا کہ مشرکین کے ہاتھوں مسلمان شہداء کا مُثلہ کیا جارہا ہے تو رک گیا، پھر آگے بڑھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مشرک جو بھاری بھرکم زِرہ میں ملبوس تھا، شہیدوں کے درمیان سے گزر رہا ہے اور کہتا جا رہا ہے کہ "کٹی ہوئی بکریوں کی طرح ڈھیر ہوگئے"، دیکھا کہ ایک مسلمان اس کی راہ تک رہا ہے، وہ بھی زِرہ پہنے ہوئے، میں چند قدم اور بڑھ کر اس کے پیچھے ہولیا، پھر کھڑے ہو کر آنکھوں ہی آنکھوں میں مسلم اور کافر کو تولنے لگا، محسوس ہوا کہ کافر اپنے ڈیل ڈول اور سازوسامان دونوں لحاظ سے بہتر ہے، اب میں دونوں کا انتظار کرنے لگا، بالآخر دونوں میں ٹکر ہوگئی اور مسلمان نے کافر کو ایسی تلوار ماری کہ وہ پاؤں تک کاٹتی چلی گئی، مشرک دوٹکڑے ہو کر گرا، پھر مسلمان نے اپنا چہرا کھولا اور کہا: "او کعب! کیسی رہی۔؟ میں ابو دجانہ (رضی اللہ عنہ) ہوں۔" ( البدایۃ والنہایۃ ۴/۱۷)

خاتمۂ جنگ پر کچھ مومن عورتیں میدانِ جہاد میں پہنچیں، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور امِ سُلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ پیٹھ پر مشک لاد لاد کر لارہی تھیں اور قوم کے منہ میں انڈیل رہی تھیں۔ (صحیح بخاری ۱/۴۰۳ ، ۵۸۱)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ احد کے روز حضرت اُم سلیط رضی اللہ عنہا ہمارے لیے مشک بھر بھر کر لارہی تھیں۔ (ایضاً ۱/۴۰۳)

حضرت سَہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زخم کس نے دھویا، پانی کس نے بہایا اور علاج کس چیز سے کیا گیا۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ڈھال سے پانی بہا رہے تھے، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی کے سبب خون بڑھتا ہی جارہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جلا کر چپکا دیا، جس سے خون رک گیا۔" ( صحیح بخاری ۲/۵۸۴)

ادھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ شیریں اور خوش ذائقہ پانی لائے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا اور دعائے خیر دی۔ (السیرۃ الحلبیہ ۲/۳۰)

زخم کے اثر سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز بیٹھے بیٹھے پڑھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھ ہی کر نماز ادا کی۔ (ابن ہشام ۲/۸۷)

قریش کی واپسی کے بعد مسلمان اپنے شہیدوں اور زخمیوں کی کھوج خبر لینے کے لیے فارغ ہوگئے، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بھیجا کہ میں سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کو تلاش کروں اور فرمایا کہ "اگر وہ دکھائی پڑجائیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دریافت کررہے ہیں کہ تم اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو۔؟"

حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقتولین کے درمیان چکر لگاتے ہوئے ان کے پاس پہنچا تو ان کی آخری سانس آ جا رہی تھی، انہیں نیزے، تلوار اور تیر کے ستر سے زیادہ زخم آئے تھے، میں نے کہا: "اے سعد! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو سلام کہتے ہیں اور دریافت فرمارہے ہیں کہ مجھے بتاؤ اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو۔؟"

انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام۔ آپ سے عرض کرو کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جنت کی خوشبو پا رہا ہوں اور میری قوم انصار سے کہو کہ اگر تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی اور دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گیا تو تمہارے لیے اللہ کے نزدیک کوئی عذر نہ ہوگا۔" اور اسی وقت ان کی روح پرواز کر گئی۔ (زاد المعاد ۲/۹۶)

لوگوں نے زخمیوں میں "اُصیرم" کو بھی پایا جن کا نام عمرو بن ثابت تھا، ان میں تھوڑی سی رمق باقی تھی، اس سے قبل انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی تھی مگر وہ قبول نہیں کرتے تھے، اس لیے لوگوں نے (حیرت سے ) کہا: "یہ اصیرم کیسے آیا ہے۔؟ اسے تو ہم نے اس حالت میں چھوڑا تھا کہ وہ اس دین کا انکاری تھا۔" چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہاں کیا چیز لے آئی؟ قوم کی حمایت کا جوش یا اسلام کی رغبت۔؟"

انہوں نے کہا: "اسلام کی رغبت۔ درحقیقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آیا اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت میں شریک جنگ ہوا، یہاں تک کہ اب اس حالت سے دوچار ہوں جو آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔" اور اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "وہ جنتیوں میں سے ہے۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حالانکہ اس نے اللہ کے لیے ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی تھی (کیونکہ اسلام لانے کے بعد ابھی کسی نماز کا وقت آیا ہی نہ تھا کہ شہید ہوگئے) (ایضا ۲/۹۴، ابن ہشام ۲/۹۰)

ان ہی زخمیوں میں "قُزمان" بھی ملا، اس نے جنگ میں خوب خوب داد شجاعت دی تھی اور تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو تہ تیغ کیا تھا، وہ جب ملا تو زخموں سے چور تھا، لوگ اسے اٹھا کر بنو ظفر کے محلے میں لے گئے اور مسلمانوں نے خوشخبری سنائی، کہنے لگا: "واللہ! میری جنگ تو محض اپنی قوم کے ناموس کے لیے تھی اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لڑائی ہی نہ کرتا۔" اس کے بعد جب اس کے زخموں نے شدت اختیار کی تو اس نے اپنے آپ کو ذبح کرکے خودکشی کرلی۔" ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا جب بھی ذکر کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔ (زادالمعاد ۲/۹۷ ، ۹۸۔ ابن ہشام ۲/۸۸)

اور اس واقعے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی، حقیقت یہ ہے کہ اِعلاء کلمۃُ اللہ کے بجائے وطنیت یا کسی بھی دوسری راہ میں لڑنے والوں کا انجام یہی ہے، چاہے وہ اسلام کے جھنڈے تلے بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے لشکر ہی میں شریک ہوکر کیوں نہ لڑرہے ہوں۔

اس کے بالکل برعکس مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا، اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلارہے تھے، اپنی قوم سے کہا: "اے جماعت یہود! اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد تم پر فرض ہے۔" یہود نے کہا: "مگر آج سَبت (سنیچر) کا دن ہے۔" اس نے کہا: "تمہارے لیے کوئی سبت نہیں۔" پھر اس نے اپنی تلوار لی، ساز وسامان اٹھایا اور بولا: "اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے، وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے۔" اس کے بعد میدانِ جنگ میں گیا اور لڑتے بھِڑتے مارا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مُخیریق بہترین یہودی تھا۔" (ابن ہشام ۲/۸۸، ۸۹)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں