سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 267


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 267

رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی سلول کی موت:

عبداللہ کی دادی کا نام سلول تھا، وہ بنو حبلیٰ کا سردار اور یثرب کا ذی اثر آدمی تھا، اگر آنحضرت ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف نہ لاتے تو یہ بادشاہ بن جاتا، یہ ایسا صدمہ تھا جو اس کے حق میں نفاق کا مرض بن گیا، بظاہر وہ مسلمان ہو گیا، لیکن در پردہ سازشوں سے حضور ﷺ اور مسلمانوں کے در پے آزار رہتا تھا ، اسی لئے اسے رئیس المنافقین کہا جاتا ہے، جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوا تو آنحضرت ﷺ اپنی عادت کے مطابق اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، اس نے حضور ﷺ سے درخواست کی کہ کفن کے لئے اپنی قمیص عنایت فرمائیں اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھائیں، حضور ﷺ نے دونوں باتیں منظور فرمالیں، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو آکر کہنے لگے : یارسول اللہ ! آپ اس منافق کو اپنی قمیص عطا فرمارہے ہیں؟ حضورﷺ نے جواب دیا : اے عمر ! میری قمیص سے اس کو کچھ فائدہ نہ پہنچے گا مگر میں اپنا طرز عمل کیوں بدلوں، ممکن ہے میرے اس سلوک سے دوسرے منافق مسلمان ہو جائیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضورﷺ کے اس خُلق عظیم کو دیکھ کر اسی دن ایک ہزار منافق سچے دل سے مسلمان ہو گئے، جب وہ مر گیا تو اس کے بیٹے جو مخلص مسلمان تھے نماز جنازہ پڑھانے کے لئے حضور ﷺ کو بلانے آئے، حضور ﷺ تشریف لے جانے کے لئے کھڑے ہوئے، حضرت عمرؓ نے پھر روکا اور عرض کیا:یا رسول اللہ ! کیا قرآن مجید میں ان کے متعلق یہ نہیں فرمایا گیا ہے:

( اے پیغمبر) چاہے تم ان کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو ( دونوں برابر ہیں ) اگر ستر بار بھی ان کے لئے استغفار کرو گے تب بھی اللہ ان کو نہیں بخشے گا ، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ ایسے نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا"
(سورۂ توبہ : ۸۰)

حضورﷺ نے فرمایا: اے عمر ! اس آیت میں مجھے مغفرت کی دعا مانگنے سے منع تو نہیں فرمایا گیا، یہ فرمایا گیا ہے کہ میں ستر بار بھی دعا مانگوں تب بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہ فرمائے گا، تومیں ستر سے زیادہ مرتبہ مغفرت کی دعا مانگ لوں گا ، آخر حضورﷺ تشریف لے گئے اور نماز جنازہ پڑھائی ( ابن کثیر)جب آپ نماز پڑھ چکے تو وحی نازل ہوئی:

(ترجمہ )

" ان میں سے کوئی مرجائے تو آپﷺ اس کے جنازہ کی نماز ہر گزنہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں، یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بد کار بے اطاعت رہے ہیں"
(سورۂ توبہ : ۸۴ )

اس واقعہ کے بعد حضور ﷺ کو منافقین کی جنازہ کی نماز پڑھنے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگنے سے صاف طور پر منع فرما دیا گیا، اس کے علاوہ بذریعہ وحی یہ بھی حکم دیا گیا کہ اب ان کے ساتھ کافروں سے بد تر معاملہ کیا جائے اگر یہ جہاد میں شریک ہونا چاہیں تو ان کو ساتھ نہ لیا جائے اور ان کی مالی امداد بھی قبول نہ کی جائے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں