سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 274
وفدِ ثقیف کی آمد:
یہ وفد رمضان ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ہوا۔ اس قبیلے میں اسلام پھیلنے کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ ذی قعدہ ۸ ھ میں جب غزوہ ٔطائف سے واپس ہوئے تو آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس قبیلے کے سردار عُروہ بن مسعود نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اپنے قبیلہ میں واپس جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ چونکہ اپنی قوم کا سردار تھا، اور صرف یہی نہیں کہ اس کی بات مانی جاتی تھی، بلکہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنی لڑکیوں اور عورتوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے تھے، اس لیے اس کا خیال تھا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جب اس نے اسلام کی دعوت دی تو اس کی توقع کے بالکل برخلاف لوگوں نے اس پر ہرطرف سے تیروں کی بوچھاڑ کردی اور اسے جان سے مار ڈالا۔ پھر اسے قتل کرنے کے بعد چند مہینے تو یوں ہی مقیم رہے۔ لیکن اس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ گرد وپیش کا علاقہ جو مسلمان ہوچکا ہے، اس سے ہم مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہوں نے باہم مشورہ کرکے طے کیا کہ ایک آدمی کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجیں۔ اور اس کے لیے عَبْدِ یالَیْل بن عَمرو سے بات چیت کی، مگر وہ آمادہ نہ ہوا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو عروہ بن مسعود کے ساتھ کیا جاچکا ہے۔ اس لیے اس نے کہا : میں یہ کام اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک میرے ساتھ مزید کچھ آدمی نہ بھیجو۔ لوگوں نے اس کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ حلیفوں میں سے دوآدمی اور بنی مالک میں سے تین آدمی لگا دیے۔ اس طرح کل چھ آدمیوں کا وفد تیار ہوگیا۔ اسی وفد میں حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی بھی تھے جو سب سے زیادہ کم عمر تھے۔
جب یہ لوگ خدمت نبویﷺ میں پہنچے تو آپ نے ان کے لیے مسجد کے ایک گوشے میں ایک قُبہّ لگوایا تاکہ یہ قرآن سن سکیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آتے جاتے رہے اور آپﷺ انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ آخر ان کے سردار نے سوال کیا کہ آپ اپنے اور ثقیف کے درمیان ایک معاہدہ ٔ صلح لکھ دیں جس میں زنا کاری ، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت ہو۔ ان کے معبود '' لات '' کو برقرار رہنے دیا جائے۔ انہیں نماز سے معاف رکھا جائے اور ان کے بُت خود ان کے ہاتھوں سے نہ تڑوائے جائیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان میں سے کوئی بھی بات منظور نہ کی۔ لہٰذا انہوں نے تنہائی میں مشورہ کیا مگر انہیں رسول اللہﷺ کے سامنے سپر ڈالنے کے سوا کوئی تدبیر نظر نہ آئی۔ آخر انہوں نے یہی کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حوالے کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ ''لات'' کو ڈھانے کا انتظام رسول اللہﷺ خود فرمادیں۔ ثقیف اسے اپنے ہاتھوں سے ہرگز نہ ڈھائیں گے۔ آپﷺ نے یہ شرط منظور کرلی اور ایک نوشتہ لکھ دیا۔ اور عثمان بن ابی العاص ثقفی کو ان کا امیر بنادیا کیونکہ وہی اسلام کو سمجھنے اور دین وقرآن کی تعلیم حاصل کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش اور حریص تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وفد کے ارکان ہر روز صبح خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوتے تھے، لیکن عثمانؓ بن ابی العاص کو اپنے ڈیرے پر چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے جب وفد واپس آکر دوپہر میں قیلولہ کرتا تو حضرت عثمانؓ بن ابی العاص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر قرآن پڑھتے اور دین کی باتیں دریافت کرتے اور جب آپﷺ کو استراحت فرماتے ہوئے پاتے تو اسی مقصد کے لیے حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں چلے جاتے۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی گورنری بابرکت ثابت ہوئی۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جب خلافت صدیقی میں ارتداد کی لہر چلی اور ثقیف نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے مخاطب کر کے کہا :''ثقیف کے لوگو! تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے مرتد نہ ہوؤ۔''یہ سن کر لوگ ارتداد سے رک گئے اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔
بہرحال وفد نے اپنی قوم میں واپس آکر اصل حقیقت کوچھپائے رکھا اور قوم کے سامنے لڑائی اور مار دھاڑ کا ہوّا کھڑا کیا اور حزن وغم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور زنا، شراب اور سُود چھوڑ دیں۔ ورنہ سخت لڑائی کی جائے گی۔ یہ سن کرپہلے تو ثقیف پر نخوتِ جاہلیہ غالب آئی اور وہ دوتین روز تک لڑائی ہی کی بات سوچتے رہے ، لیکن پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے وفد سے گزارش کی کہ وہ پھر رسول اللہﷺ کے پاس واپس جائے اور آپﷺ کے مطالبات تسلیم کرلے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وفد نے اصل حقیقت ظاہر کی اور جن باتوں پر مصالحت ہوچکی تھی ان کا اظہار کیا۔ ثقیف نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
ادھر رسول اللہﷺ نے لات کو ڈھانے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں چند صحابہؓ کی ایک ذرا سی نفری روانہ فرمائی۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نے کھڑے ہوکر گرز اُٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: واللہ ! میں ذرا آپ لوگوں کو ثقیف پر ہنساؤں گا۔ اس کے بعد لات پر گرزمار کر خود ہی گرپڑے اور ایڑیاں پٹکنے لگے۔
یہ بناوٹی منظر دیکھ کر اہلِ طائف پر ہول طاری ہوگیا۔ کہنے لگے : اللہ مغیرہ کو ہلا ک کرے ، اسے دیوی نے مار ڈالا۔ اتنے میں حضرت مغیرہؓ اچھل کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا : اللہ تمہارا بُرا کرے۔ یہ تو پتھر اور مٹی کا تماشا ہے۔ پھر انہوں نے دروازے پر ضرب لگائی اور اسے توڑ دیا۔ اس کے بعد سب سے اونچی دیوار پر چڑھے اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی چڑھے۔ پھر اسے ڈھاتے ڈھاتے زمین کے برابر کردیا حتیٰ کہ اس کی بنیاد بھی کھود ڈالی اور اس کا زیور اور لباس نکال لیا۔ یہ دیکھ کر ثقیف دم بخورد رہ گئے۔ حضرت خالدؓ زیور اور لباس لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ واپس ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے سب کچھ اسی دن تقسیم فرمادیا اور نبی کی نصرت اور دین کے اعزاز پر اللہ کی حمد کی۔
( زاد المعاد ۳/۲۶، ۲۷، ۲۸، ابن ہشام ۲/۵۳۷ تا ۵۴۲)
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں