سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 272


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 272

مختلف وفود کی آمد:

اہل مغازی نے جن وفود کا تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد ستر سے زیادہ ہے لیکن یہاں نہ تو ان کے اِستقصاء کی گنجائش ہے اور نہ ان کے تفصیلی بیان میں کوئی بڑا فائدہ ہی مضمر ہے۔ اس لیے ہم صرف انہی وفود کا ذکر کررہے ہیں جو تاریخی حیثیت سے اہمیت و ندرت کے حامل ہیں۔

قارئین کرام کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگر چہ عام قبائل کے وفود فتح مکہ کے بعد خدمت نبویﷺ میں حاضر ہونا شروع ہوئے تھے۔ لیکن بعض بعض قبائل ایسے بھی تھے جن کے وفود فتح مکہ سے پہلے ہی مدینہ آچکے تھے۔ یہاں ہم ان کا ذکر بھی کررہے ہیں۔

۱۔ وفد عبد القیس:

اس قبیلے کا وفد دوبار خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوا تھا۔ پہلی بار ۵ ھ میں یا اس سے بھی پہلے۔ اور دوسری بار عام الوفود ۹ ھ میں۔ پہلی بار اس کی آمد کی وجہ یہ ہوئی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حبان سامان تجارت لے کر مدینہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب نبیﷺ کی ہجرت کے بعد پہلی بار مدینہ آیا اور اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ اور نبیﷺ کا ایک خط لےکر اپنی قوم کے پاس گیا۔ ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اور ان کے ۱۳ یا ۱۴ آدمیوں کا ایک وفد حرمت والے مہینے میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا۔ اسی دفعہ اس وفد نے نبیﷺ سے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا۔ اس وفد کا سربراہ الاشج العصری تھا۔ جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: (۱) دوراندیشی اور (۲)بُردباری۔
دوسری باراس قبیلے کا وفد جیساکہ بتایا گیا وفود والے سال میں آیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جارود عبدی تھا ، جو نصرانی تھا ، لیکن مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔ ( شرح صحیح مسلم للنووی۱/۳۳، فتح الباری ۸/۸۵، ۸۶)

2۔ وفد دَوس:

یہ وفد ۷ ھ کے اوائل میں مدینہ آیا۔ اس وقت رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ آپ پچھلے اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ اس قبیلے کے سربراہ حضرت طُفیل بن عَمرو دوسیؓ اس وقت حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تھے، جب رسول اللہﷺ مکہ میں تھے۔ پھر انہوں نے اپنی قوم میں واپس جاکر اسلام کی دعوت وتبلیغ کا کام مسلسل کیا لیکن ان کی قوم برابر ٹالتی اور تاخیر کرتی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت طفیل ان کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پھر انہوں نے خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ قبیلہ دوس پر بد دعا کردیجیے۔ لیکن آپ نے فرمایا : اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے۔ اور آپ کی اس دعا کے بعد اس قبیلے کے لوگ مسلمان ہوگئے۔ اور حضرت طفیل نے اپنی قوم کے ستر یا اسی گھرانوں کی جمعیت لے کر ۷ ھ کے اوائل میں اس وقت مدینہ ہجرت کی جب نبیﷺ خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس کے بعد حضرت طفیل نے آگے بڑھ کر خیبر میں آپ کا ساتھ پکڑ لیا۔

3۔ فروہ بن عَمْرو جذامی کا پیغام رساں:

حضرت فَرْوَہ ، رومی سپاہ کے اندر ایک عربی کمانڈر تھے۔ انہیں رُومیوں نے اپنے حدود سے متصل عرب علاقوں کا گورنر بنا رکھا تھا۔ ان کا مرکز معان (جنوبی اُردن ) تھا اور عملداری گرد وپیش کے علاقے میں تھی۔ انہوں نے جنگ مُوتہ ( ۸ ھ ) میں مسلمانوں کی معرکہ آرائی ، شجاعت اور جنگی پختگی دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور ایک قاصد بھیج کر رسول اللہﷺ کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی۔ تحفہ میں ایک سفید خچر بھی بھجوایا۔ رومیوں کو ان کے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے تو انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ پھر اختیار دیا کہ یا تو مرتد ہوجائیں یاموت کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے ارتداد پر موت کو ترجیح دی۔ چنانچہ انہیں فلسطین میں عفراء نامی ایک چشمے پر سولی دے کر ان کی گردن مار دی گئی۔( زادالمعاد ۳/۴۵)

5۔ وفد طَی:

اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبیﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔

6۔ وفد عذرہ:

یہ وفد صفر ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ بارہ آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس میں حمزہ بن نعمان بھی تھے۔ جب وفد سے پوچھا گیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ تو ان کے نمائندے نے کہا : ہم بنوعذرہ ہیں۔ قُصّیِ کے اَخْیافی بھائی۔ ہم نے ہی قصی کی تائید کی تھی۔ اور خزاعہ اور بنوبکر کو مکہ سے نکالا تھا۔ (یہاں) ہمارے رشتے اور قرابت داریاں ہیں۔ اس پر نبیﷺ نے خوش آمدید کہا۔ اور ملک شام کے فتح کیے جانے کی بشارت دی۔ نیز انہیں کاہنہ عورتوں سے سوال کرنے سے منع کیا۔ اور ان ذبیحوں سے روکا جنہیں یہ لوگ (حالت شرک میں ) ذبح کیا کرتے تھے۔ اس وفد نے اسلام قبول کیا اور چند روز ٹھہر کر واپس گیا۔

7۔ وفد بلی:

یہ ربیع الاول ۹ ھ میں آیا۔ اور حلقۂ بگوش اسلام ہو کر تین روز مقیم رہا۔ دوران قیام وفد کے رئیس ابوالضبیب نے دریافت کیا کہ کیا ضیافت میں بھی اجر ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہاں ! کسی مالدار یا فقیر کے ساتھ جو بھی اچھا سلوک کروگے وہ صدقہ ہے۔ اس نے پوچھا: مدت ضیافت کتنی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: تین دن۔ اس نے پوچھا : کسی لاپتہ شخص کی گمشدہ بھیڑ مل جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ تمہارے لیے ہے۔ یا تمہارے بھائی کے لیے ہے۔ یا پھر بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس کے بعد اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا۔ آپﷺ نے فرمایا : تمہیں اس سے کیا واسطہ؟ اسے چھوڑ دو ، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پاجائے۔

8۔ شاہانِ یمن کا خط:

تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد شاہانِ حِمیر یعنی حارث بن عبد کلال ، نعیم بن عبدکلال اور رعین ، ہمدان اور معافر کے سربراہ نعمان بن قیل کا خط آیا۔ ان کا نامہ بر مالک بن مُرّہ رہادی تھا۔ ان بادشاہوں نے اپنے اسلام لانے اور شرک واہلِ شرک سے علیحدگی اختیار کرنے کی اطلاع دے کر اسے بھیجا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے پاس ایک جوابی خط لکھ کر واضح فرمایا کہ اہلِ ایمان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ آپ نے اس خط میں معاہدین کے لیے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بھی دیا تھا ، بشرطیکہ وہ مقررہ جزیہ اداکریں۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ فرمایا اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔

9۔ وفد ِ ہمدان: 

یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد حاضرِ خدمت ہوا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ کر ، جو کچھ انہوں نے مانگا تھا عطا فرمادیا اور مالک بن نمطؓ کو ان کا امیر مقرر کیا، ان کی قوم کے جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کا گورنر بنایا اور باقی لوگوں کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھیج دیا۔ وہ چھ مہینے مقیم رہ کر دعوت دیتے رہے لیکن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر آپﷺ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو بھیجا اور حکم دیا کہ وہ خالدؓ کو واپس بھیج دیں۔ حضرت علیؓ نے قبیلہ ٔ ہمدان کے پاس جاکر رسول اللہﷺ کا خط سنایا اور اسلام کی دعوت دی تو سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کو ان کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی بشارت بھیجی۔ آپ نے خط پڑھا تو سجدے میں گرگئے۔ پھر سر اٹھاکر فرمایا؛ ہمدان پر سلام ، ہمدان پر سلام۔

۱۱۔ وفد بنی فَزَارہ:

یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے نبیﷺ کی واپسی کے بعد آیا۔ اس میں دس سے کچھ زیادہ افراد تھے۔ اور سب کے سب اسلام لاچکے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے علاقے کی قحط سالی کی شکایت کی، رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لے گئے۔ اور دونوں ہاتھ اٹھاکر بارش کی دعا کی۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اپنے ملک اور اپنے چوپایوں کو سیراب کر ، اپنی رحمت پھیلا ، اپنے مردہ شہر کو زندہ کر۔ اے اللہ ! ہم پر ایسی بارش برسا جو ہماری فریاد رسی کردے ، راحت پہنچادے ، خوشگوار ہو ، پھیلی ہوئی ہمہ گیر ہو ، جلد آئے ، دیر نہ کرے ، نفع بخش ہو ، نقصان رساں نہ ہو ، اے اللہ ! رحمت کی بارش ، عذاب کی بارش نہیں۔ اور نہ ڈھانے والی ، نہ غرق کرنے والی اور نہ مٹانے والی بارش۔ اے اللہ ! ہمیں بارش سے سیراب کر ، اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔( زاد المعاد ۳/۴۸)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں