سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 268


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 268

حج ٩ ہجری (زیرِ امارت ابوبکر رضی اللہ عنہ):

اسی سال ذی قعدہ یا ذی الحجہ ۹ ھ میں رسول اللہﷺ نے مناسک ِ حج قائم کرنے کی غرض سے ابوبکرؓ کو امیر الحج بنا کر روانہ فرمایا۔

اس کے بعد سورۂ براءت کا ابتدائی حصہ نازل ہوا۔ جس میں مشرکین سے کیے گئے عہد وپیمان کو برابری کی بنیاد پر ختم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس حکم کے آجانے کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو روانہ فرمایا۔ تاکہ وہ آپ کی جانب سے اس کا اعلان کردیں۔ ایسا اس لیے کرنا پڑا کہ خون اور مال کے عہد وپیمان کے سلسلے میں عرب کا یہی دستور تھا (کہ آدمی یا تو خود اعلان کرے یا اپنے خاندان کے کسی فرد سے اعلان کرائے۔ خاندان سے باہر کے کسی آدمی کا کیا ہوا اعلان تسلیم نہیں کیا جاتا تھا ) حضرت ابو بکرؓ سے حضرت علیؓ کی ملاقات عرج یا وادیٔ ضبحنان میں ہوئی۔ حضرت ابو بکرؓ نے دریافت کیا کہ امیر ہو یا مامور ؟

حضرت علیؓ نے کہا : نہیں بلکہ مامور ہوں۔ پھر دونوں آگے بڑھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے لوگوں کو حج کرایا۔ جب (دسویں تاریخ ) یعنی قربانی کا دن آیا تو حضرت علیؓ بن ابی طالب نے جمرہ کے پاس کھڑے ہوکر لوگوں میں وہ اعلان کیا جس کا حکم رسول اللہﷺ نے دیا تھا۔ یعنی تمام عہد والوں کا عہد ختم کردیا۔ اور انہیں چار مہینے کی مہلت دی۔ اسی طرح جن کے ساتھ کوئی عہد وپیمان نہ تھا انہیں بھی چار مہینے کی مہلت دی گئی۔ البتہ جن مشرکین نے مسلمانوں سے عہد نبھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی تھی اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد کی تھی، ان کا عہد ان کی طے کردہ مدت تک برقرار رکھا۔

اور حضرت ابو بکرؓ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھیج کر یہ اعلانِ عام کرایا کہ آئندہ سے کوئی مشرک حج نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف کرسکتا ہے۔
یہ اعلان گویا جزیرۃ العرب سے بُت پرستی کے خاتمے کا اعلان تھا، یعنی اس سال کے بعد بُت پرستی کے لیے آمدورفت کی کوئی گنجائش نہیں۔

1 اس حج کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو : صحیح بخاری ۱/۲۲۰، ۴۵۱ ، ۲/۶۲۶، ۶۷۱ ، زاد المعاد ۳/۲۵، ۲۶ ابن ہشام ۲/۵۴۳تا ۵۴۶ اور کتب تفسیر ابتدا سورہ ٔ براء ت۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں