سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 281
مدینہ سے روانگی:
ابن سعد نے لکھا کہ ۲۵ ذیقعدہ بروز شنبہ آپﷺ روانہ ہوئے، حافظ ابن حجر نے اس کی بہت عمدہ تحقیق کی ہے۔ اور بعض روایات میں جو یہ آیا ہے کہ ذیقعدہ کے پانچ دن باقی تھے، تب آپ روانہ ہوئے اس کی تصحیح بھی کی ہے۔ دیکھئے فتح الباری ۸/۱۰۴
تمام ازواج مطہرات ساتھ تھیں، مدینہ میں حضرت ابو دجانہؓ ساعدی کو اور بروایت دیگر حضرت سباؓع بن عرفطہ غفاری کو نائب مقرر فرمایا، بالو ں میں کنگھی کی۔ تیل لگایا۔ تہبند پہنا، چادر اوڑھی، قربانی کے جانوروں کو قَلادَہ پہنایا۔ اور ظہر کے بعد کوچ فرمایا۔ اور عصر سے پہلے ذو الحلیفہ پہنچ گئے۔ وہاں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی۔ اور رات بھر خیمہ زن رہے۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والے نے آکر کہا : اس مبارک وادی میں نماز پڑھو۔ اور کہو: حج میں عمرہ ہے۔ ( اسے بخاری نے حضرت عمرؓ سے روایت کیا ہے۔ ۱/۲۰۷)۔
پھر ظہر کی نماز سے پہلے آپ ﷺ نے اِحْرام کے لیے غسل فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے آپﷺ کے جسمِ اطہر اور سرَ مبارک میں اپنے ہاتھ سے ذَرِیْرَہ اور مُشک آمیز خوشبو لگائی۔ خوشبو کی چمک آپﷺ کی مانگ اور داڑھی میں دکھائی پڑتی تھی۔ مگر آپﷺ نے یہ خوشبو دھوئی نہیں۔ بلکہ برقرار رکھی، پھر اپنا تہبند پہنا، چادر اوڑھی اور دو رکعت ظہر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھتے ہوئے صدائے لَبَّیک بلند کی۔ پھر باہر تشریف لائے۔ قَصْوَاء اُونٹنی پر سوار ہوئے۔ اور دوبارہ صدائے لبیک بلند کی۔ اس کے بعد اُونٹنی پر سوار کھلے میدان میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی لبَّیک پُکارا۔
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ احرام باندھنے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہیں وہ حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لیں اور احرام اس وقت تک نہ کھولیں جب تک یہ دونوں کام انجام نہ دیں، مسعودی نے اونٹوں کی تعداد (۶۰) لکھی ہے، قربانی کے جانور حضرت ناجیہ ؓ بن جندب کے حوالے کئے گئے۔
ازواج مطہرات میں (۹) بیویاں اور صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہؓ ساتھ تھیں، اثنائے سفر میں حضرت ابو بکرؓ کی زوجہ اسماءؓ بنت عمیس کے ہاں ذو الحلیفہ میں لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد بن ابو بکر رکھا گیا، مکہ سے ۶ تا ۱۲ میل کے دوران مقام سرف پر پہنچے تو حضرت عائشہؓ حائضہ تھیں ، انھوں نے روتے ہوئے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اب میں عمرہ کرسکوں گی یا نہیں ، آپﷺ نے فرمایا یہ تو آدم ؑ کی تمام بیٹیوں پر لازم ہے اس لئے وہ سارے کا م کرو جو ہر حاجی کرتا ہے بجز طواف کے، سر کھول کر بالوں میں کنگھی کرو اور عمرہ کو رہنے دو ، حج کی نیت سے احرام باندھ لو ، جب حج سے فارغ ہو چکیں تو حضرت عائشہؓ کو ان کے بھائی عبدالرحمن کے ساتھ تنعیم ( مکہ کی میقات ) پر عمرہ کا احرام باندھنے بھیجا، حضور ﷺ نے فرمایا ، یہ عمرہ اس کے بدلہ میں ہے جو تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔
حضور ﷺ نے مکہ جانے کے لئے وہ راستہ اختیار فرمایا جس میں شجرہ نام کا مقام آتا ہے، مسجد شجرہ میں آپﷺ نے نماز ادا فرمائی، فتح مکہ کے سفر میں آپﷺ نے جن جن مقامات پر نمازیں ادا فرمائی تھیں وہاں مساجد تعمیر کر لی گئی تھیں، آپﷺ نے وہاں نمازیں پڑھیں، اس موقع پر چاروں طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دے رہے تھے۔
حضرت عقبہؓ بن عامر کی بہن نے پیدل حج کی نذر مانی تھی، انھوں نے آپﷺ سے پوچھا تو فرمایا: پیدل بھی چلو اور سوار بھی ہو جاؤ، ایک بوڑھے شخص نے بھی پیدل حج کی نذر مانی تھی اور وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان سہارے سے چل رہا تھا، جب حضور ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا: اس سے کہو کہ سوار ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس کی مشقت سے بے نیاز ہے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں