سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 277
وفد بنی حنیفہ:
یہ وفد ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب سمیت سترہ آدمی تھے۔( فتح الباری ۸/ ۸۷) مسیلمہ کا سلسلہ ٔ نسب یہ ہے ، مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب بن حارث - یہ وفد ایک انصاری صحابی کے مکان پر اترا۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ البتہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اکڑ ، تکبر اور امارت کی ہوس کا اظہار کیا۔ اور وفد کے باقی ارکان کے ساتھ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ نبیﷺ نے پہلے تو قولاً اور فعلاً اچھے اور شریفانہ برتاؤ کے ذریعہ اس کی دلجوئی کرنی چاہی، لیکن جب دیکھا کہ اس شخص پر اس برتائو کا کوئی مفید اثر نہیں پڑا تو آپﷺ نے اپنی فراست سے معلوم کرلیا کہ اس کے اندر شر ہے۔
اس سے قبل نبیﷺ یہ خواب دیکھ چکے تھے کہ آپﷺ کے پاس روئے زمین کے خزانے لاکر رکھ دیے گئے ہیں۔ اور اس میں سے سونے کے دوکنگن آپ کے ہاتھ میں آپڑے ہیں۔ آپ کو یہ دونوں بہت گراں اور رنجیدہ محسوس ہوئے۔ چنانچہ آپﷺ کو وحی کی گئی کہ ان دونوں کو پھونک دیجیے۔ آپﷺ نے پھونک دیا تو وہ دونوں اڑ گئے۔
اس کی تعبیر آپﷺ نے فرمائی کہ آپﷺ کے بعد دوکذاب (پر لے درجے کے جھوٹے ) نکلیں گے۔ چنانچہ جب مسیلمہ کذاب نے اکڑ اور انکار کا اظہار کیا ۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد نے کاروبارِ حکومت کو اپنے بعد میرے حوالے کرنا طے کیا ، تو میں ان کی پیروی کروں گا، تو رسول اللہﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی ، اور آپﷺ کے ہمراہ آپ کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ تھے۔ مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے درمیان موجود تھا۔ آپ ا س کے سر پر جاکر کھڑے ہوئے اور گفتگو فرمائی۔ اس نے کہا : اگر آپ چاہیں تو ہم حکومت کے معاملے میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اپنے بعد اس کو ہمارے لیے طے فرمادیں۔ آپﷺ نے (کھجور کی شاخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) فرمایا : اگر تم مجھ سے یہ ٹکڑ ا چاہو گے تو تمہیں یہ بھی نہ دوں گا۔ اور تم اپنے بارے میں اللہ کے مقرر کیے ہوئے فیصلے سے آگے نہیں جاسکتے۔ اور اگر تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تمہیں توڑ کر رکھ دے گا۔ اللہ کی قسم ! میں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے وہ (خواب) دکھلایا گیا ہے جو دکھلایا گیا ہے۔ اور یہ ثابت بن قیس ہیں جو تمہیں میری طرف سے جواب دیں گے۔ اس کے بعد آپ واپس چلے آئے۔( صحیح بخاری باب وفد بنی حنیفہ اور باب قصۃ الاسود العنسی ۲/۶۲۷، ۶۲۸ اور فتح الباری ۸/۸۷تا۹۳)
بالآخر وہی ہوا جس کا اندازہ رسول اللہﷺ نے اپنی فراست سے کرلیا تھا، یعنی مسیلمہ کذاب یمامہ واپس جاکر پہلے تو اپنے بارے میں غور کرتا رہا۔ پھر دعویٰ کیا کہ اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ کارِ نبوت میں شریک کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور سجع گھڑ نے لگا۔ اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب حلال کردی۔ اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے بارے میں یہ شہادت بھی دیتا رہا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس شخص کی وجہ سے ا س کی قوم فتنے میں پڑ کر اس کی پیروکار وہم آواز بن گئی۔ نتیجتاً اس کا معاملہ نہایت سنگین ہوگیا۔ اس کی اتنی قدر ومنزلت ہوئی کہ اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ اور اب اس نے رسول اللہﷺ کو ایک خط لکھا کہ مجھے اس کام میں آپ کے ساتھ شریک کردیا گیا ہے۔ آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ رسول اللہﷺ نے جوا ب میں لکھا کہ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور انجام متقیوں کے لیے ہے۔ (زاد المعاد ۳/۱۳ ، ۳۲)
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کے قاصد بن کر نبیﷺ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں شہادت دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ انہوں نے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا : میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر میں کسی قاصد کو قتل کرتا تو تم دونوں کو قتل کردیتا۔ (مسند احمد مشکوٰۃ ۲/۳۴۷)
مسیلمہ کذاب نے ۱۰ ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اور ربیع الاول ۱۲ ھ میں بہ عہد خلافتِ صدیقی یمامہ کے اندر قتل کیا گیا۔ اس کا قاتل حضرت وحشی تھا ، جس نے (بحالتِ کفر) حضرت حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔
ایک مدعی نبوت تو یہ تھا۔ جس کا انجام یہ ہوا، ایک دوسرا مدعی نبوت اَسْوَد عنسی تھا۔ جس نے یمن میں فساد برپا کر رکھا تھا۔ اسے نبیﷺ کی وفات سے صرف ایک دن اور ایک رات پہلے حضرت فیروزؓ نے قتل کیا۔ پھر آپ کے پاس اس کے متعلق وحی آئی، اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس واقعہ سے باخبر کیا۔ اس کے بعد یمن سے حضرت ابو بکرؓ کے پاس باقاعدہ خبر آئی۔
( فتح الباری ۸/۹۳)
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں