سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 284


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 284

حجۃ الوداع: ۸ / ذی الحجہ:

 ۸  ذی الحجہ ۱۰ ہجری بروزاتوار یوم ترویہ کو سب نے مقام ابطح میں احرام باندھا اور تلبیہ کہتے ہوئے مکہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے ، منیٰ میں ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں، ۹ ذی الحجہ کو حضور ﷺ نے عرفہ کی رات منیٰ میں بسر فرمائی، نماز فجر وہیں ادا کی، سورج نکلا تو عرفات روانہ ہوئے۔

قریش کا معمول تھا کہ بجائے عرفات کے معشر حرام ( جو مزدلفہ میں واقع تھا) ٹھہرتے کیونکہ وہ حدود حرم میں واقع تھا، انہوں نے خیال کیا کہ آپﷺ بھی وہیں ٹھہریں گے؛ لیکن آپﷺ نے میدان عرفات میں مقام نمرہ پر نصب شدہ کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا، زوال کے بعد اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر عرفہ کے مقام بطن وادی میں تشریف لائے اور بعد حمد و ثناء خطبہ ارشاد فرمایا :

"لوگو! میری بات غور سے سنو ، میرا خیال ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ پر تم سے نہ مل سکوں اور نہ شاید اس سال کے بعد آئندہ حج کر سکوں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب لوگ آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے پیدا کئے گئے تھے، زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے روندی گئی ہیں، زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں، میں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اپنے ہی خاندان کا ایک خون جو کہ ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا ہے معاف کرتا ہوں، دورِ جاہلیت کا ہر سود معاف ہے اور اپنے عم محترم عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں، تمہار ے غلام ! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ،
 لوگو : تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں، ( آج تک عورتیں ایک جائیداد منقولہ تھیں جو قمار بازی اور داؤں پر چڑھا دی جا سکتی تھیں، آج پہلا دن ہے کہ یہ گروہ مظلوم، یہ صنف نازک ، یہ جوہر نازک قدر دانی کا تاج پہنتا ہے ) تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کو تمہارے بستر پر نہ بیٹھنے دیں جسے تم پسند نہ کرتے ہو اور ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کھلی بے حیائی کا کوئی کام نہ کریں لیکن اگر وہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ان کے سونے کی جگہ اپنے سے الگ کر دو، ( اگر اس سے بھی باز نہ آئیں تو ) پھر تمہیں اجازت ہے کہ انہیں ایسی ہلکی مار مارو جس سے بدن پر نشان نہ پڑیں اور اگر وہ اپنی نازیبا حرکتوں سے باز آجائیں تو حسب دستور ان کا کھانا اور کپڑا تمہارے ذمہ ہے ،
خبر دار ! کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیرکسی کو کچھ دے ، عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے ہمیشہ پابند رہو کیوں کہ وہ تمہاری زیر نگرانی ہیں اور اس حیثیت سے نہیں کہ اپنے معاملات خود چلا سکیں ، عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کے ذریعہ ان کو اپنے لئے جائز اور حلا ل کیا ہے۔"

"لوگو ! اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانون نافد کر کے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے ، اس لئے اب کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت جائز و نافذ نہیں، لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو، زنا کار کے لئے پتھر ہے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ، قرض ادا کیا جانا چاہئے ، عاریت واپس ہونی چاہئے ، عطیہ کا بدلہ دیا جانا چاہئے ، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہوگا ،(سیرت طیبہ ) خبر دار: جرم کرنے والا خود اپنے جرم کا ذمہ دار ہے ، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ نہیں۔"

"خبر دار! میر ے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو اس پر لازم ہے کہ وہ امانت والے کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے لوٹا دے، اگر کوئی نکٹا اور سیاہ فام حبشی غلام بھی تمہارا امیر بنا دیا جائے اور وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید) کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم پر اس کی اطاعت لازم ہے۔"

"اے لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلے بہت سی قومیں مذہب میں غلو کے سبب برباد ہو گئیں، اے لوگو! اب شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس سرزمین پر اس کی پرستش کی جائے گی، لیکن طہارت کے سوا دوسرے معاملات میں اپنے پست افعال کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری کی گئی تو وہ اس پر بھی راضی رہے گا، تم اپنے دین کو اس کے شر سے بچا کر رکھنا۔"

"خبر دار! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اپنے رب کے گھر ( بیت اللہ) کا طواف کرو، اپنے امراء کے حکم کی پیروی کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔"

"اے لوگو! نسی کفر کی زیادتی کا سبب ہے، اس کے ذریعہ کفار گمراہ ہوتے ہیں، وہ ایک سال حرام مہینوں کو حلال کرلیتے اور دوسرے سال انہی کو حرام قرار دے لیتے تھے تا کہ اس طرح حرام مہینوں کی گنتی پوری کریں لیکن اب زمانہ اپنی اس ابتدائی حالت پر لوٹ آیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، اللہ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین مہینے مسلسل ہیں( ذی قعدہ ، ذی الحجہ، محرم )اور ایک ماہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔"

خطبہ ختم ہوا ، آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ اذان دیں، اقامت کے بعد دو رکعت نماز ظہر ادا فرمائی، قرأت آہستہ پڑھی حالانکہ وہ جمعہ کا دن تھا، مسافر ہونے کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھا ، دوسری اقامت پر عصر بھی قصر کر کے پڑھی، یہ جمع " تقدیم " کہلاتی ہے۔

پھر آپﷺ نے "اے معاشر المسلمین" کہہ کر فرمایا کہ:

"تین باتیں سینہ کو پاک رکھتی ہیں ، ایک اعمال میں اخلاص ، دوسرے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی اور تیسری بات جماعت المسلمین کا اتحاد" ، کچھ لوگ لبیک اور کچھ اللہ اکبر کہتے رہے، عرفہ کا دن تکبیراور تلبیہ پر ختم ہوا۔ (سیرت احمد مجتبیٰ).

آنحضرت ﷺ نے فرمایا :

"لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا حج کرو ، کسی نے پوچھا، کیا ہر سال حج کریں؟ آپﷺ نے خاموشی اختیار کی، اس شخص نے تین بار یہی سوال دُہرایا، کچھ دیر توقف کر کے فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم ادا نہ کر پاتے، میں جب تمہیں چھوڑے رکھوں تو تم بھی مجھے چھوڑ دیا کرو ، تم سے پہلے والے اسی لئے ہلاک ہو گئے کہ انھوں نے انبیاء سے بہ کثرت سوال کئے اور پھر ان سے اختلاف کیا، ایک شخص نے پوچھا … مَحرم کونسے کپڑے پہنے ، فرمایا : محرم قمیص پہنے نہ عمامہ باندھے، ٹوپی پہنے نہ موزے ، جوتیاں میسر نہ ہوں تو موزے کاٹ کر ٹخنوں کے نیچے کر لے، تہہ بند نہ ہو تو پائجامہ پہن سکتا ہے، زعفران یا ورس سے رنگا کر کپڑا نہ پہنے، قبیلہ جہینیہ کی ایک عورت نے پوچھا … میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن فوت ہو گئی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ فرمایا : ہاں ، اگر اس پرقرض ہوتا تو کیا تم ادا نہ کرتیں؟ اللہ اپنے حق کی ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔"

حضرت میمونہؓ اور اُم الفضل ؓ نے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا ، آپﷺ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے پی لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ روزے سے نہیں ہیں، فرمایا : میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن عرفات سارا جائے وقوف ہے سوائے بطن عرفہ کے، عرفات میں ایک شخص اونٹ سے گرا اور اونٹ نے کچل کر ہلاک کر دیا، آپﷺ نے فرمایا: اسے بیری کے پتوں میں ابلے پانی سے غسل دو، احرام ہی کا کفن دو ، نہ خوشبو لگاؤ نہ سر ڈھانپو ، بے شک اللہ اس کو قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھائے گا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں