سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 273
کعب بن زبیر بن ابی سلمہ کی آمد:
یہ شخص ایک شاعر خانوادے کا چشم وچراغ تھا اور خود بھی عرب کا عظیم ترین شاعر تھا۔ یہ کافر تھا، اور نبیﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ امام حاکم کے بقول یہ بھی ان مجرموں کی فہرست میں شامل تھا جن کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا گیا تھا کہ اگروہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے پائے جائیں تو بھی ان کی گردن مار دی جائے۔ لیکن یہ شخص بچ نکلا۔ ادھر رسول اللہﷺ غزوہ طائف ( ۸ ھ ) سے واپس ہوئے تو کعب کے پاس اس کے بھائی بجیر بن زہیرنے لکھا کہ رسول اللہﷺ نے مکہ کے کئی ان افراد کو قتل کرادیا ہے جو آپﷺ کی ہجو کرتے اور آپﷺ کو ایذائیں پہنچاتے تھے۔
قریش کے بچے کچے شعراء میں سے جس کی جدھر سینگ سمائی ہے نکل بھاگا ہے۔ لہٰذا اگرتمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو رسول اللہﷺ کے پاس اُڑکر آجاؤ، کیونکہ کوئی بھی شخص توبہ کرکے آپ کے پاس آجائے تو آپﷺ اسے قتل نہیں کرتے۔ اور اگر یہ بات منظور نہیں تو پھر جہاں نجات مل سکے نکل بھاگو۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں میں مزید خط وکتابت ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں کعب بن زہیر کو زمین تنگ محسوس ہونے لگی۔ اور اسے اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئے۔ اس لیے آخرکار وہ مدینہ آگیا اور جُہینہ کے ایک آدمی کے ہاں مہمان ہوا۔ پھر اسی کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوا تو جُہینی نے اشارہ کیا اور وہ اُٹھ کر رسول اللہﷺ کے پاس جا بیٹھا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ رسول اللہﷺ اسے پہچانتے نہ تھے۔ اس نے کہا :
اے اللہ کے رسول ! کعب بن زہیر توبہ کرکے مسلمان ہوگیا ہے۔ اور آپ سے امن کا خواستگار بن کر آیا ہے تو کیا اگر میں اسے آپ کی خدمت میں حاضر کردوں تو آپﷺ اس کی ان چیزوں کو قبول فرما لیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا : میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سن کر ایک انصاری صحابی اس پر جھپٹ پڑے اور اس کی گردن مارنے کی اجازت چاہی۔ آپﷺ نے فرمایا : چھوڑ دو ، یہ شخص تائب ہوکر اور پچھلی باتوں سے دستکش ہوکر آیا ہے۔
اس کے بعد اسی موقع پر کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ آپﷺ کو پڑھ کر سنایا۔ جس کی ابتدا یوں ہے :
بانت سعاد فقلبی الیوم متبول
متیم إثرہا، لم یفد ، مکبول
''سعاد دور ہوگئی تو میرا دل بے قرارہے۔ اس کے پیچھے وارفتہ اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ا س کا فدیہ نہیں دیا گیا۔ ''
اس قصیدے میں کعب نے رسول اللہﷺ سے معذرت کرتے ہوئے اور آپﷺ کی مدح کرتے ہوئے آگے یوں کہا ہے :
نـبـئت أن رسـول اللہ أوعــدنــی والـعـفــو عـند رسول اللہ مأمول
مـہـلا ہداک الذی أعطاک نافلۃ الـ ـقـرآن فـیـہا مـواعیـظ وتفصیــل
لا تأخذن بأقوال الـــوشـاۃ ولــم أذنـب ولـو کـثـرت فـي الأقاویل
لـقــد أقـوم مقامـاً لـــو یقـوم بـہ أرای وأسمـع مـا لـو یسـمع الفیل
لـظـل یـرعـــد إلا أن یـکون لـــہ مـن الـرسول بـإذن اللہ تـنـویــل
حتی وضعت یمینی ما أنــازعـــہ فـی کـف ذی نـقـمات قیلہ القیـل
فـلہـو أخـوف عـنـدی إذ أکلمــہ وقیل: إنـک منســـوب ومسئــول
من ضیغم بضراء الأرض مخـدرۃ فـی بطــن عـثـر غیــل دونـہ غیل
إن الرســول لنـور یستضــاء بـــہ مـہنــد من سیـوف اللہ مسـلـول
''مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے دھمکی دی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسول سے درگزر کی توقع ہے۔ آپ ٹھہریں چغل خوروں کی بات نہ لیں - وہ ذات آپ کی رہنمائی کرے جس نے آپ کو نصائح اور تفصیل سے پُر قرآن کا تحفہ دیا ہے- اگر چہ میر ے بارے میں باتیں بہت کہی گئی ہیں ، لیکن میں نے جُرم نہیں کیا ہے۔ میں ایسی جگہ کھڑا ہوں اور وہ باتیں دیکھ اور سن رہا ہوں کہ اگر ہاتھی بھی وہاں کھڑا ہو اور ان باتوں کو سنے اور دیکھے تو تھراتا رہ جائے۔ سوائے اس صورت کے کہ اس پر اللہ کے اذن سے رسول کی نوازش ہو۔ حتی کہ میں نے اپنا ہاتھ کسی نزاع کے بغیر اس ہستی ٔمحترم کے ہاتھ میں رکھ دیا جسے انتقام پر پوری قدرت ہے ، اور جس کی بات بات ہے۔ جب میں اس سے بات کرتا ہوں - درانحالیکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہاری طرف (فلاں فلاں باتیں ) منسوب ہیں۔ اور تم سے باز پرس کی جائے گی - تو وہ میرے نزدیک اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جس کا کچھار کسی ہلاکت خیزوادی کے بطن میں واقع کسی ایسی سخت زمین میں ہو جس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو۔ یقینا رسول ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک سونتی ہوئی تلوار ہیں۔''
اس کے بعد کعب بن زہیر نے مہاجرین قریش کی تعریف کی۔ کیونکہ کعب کی آمد پر ان کے کسی آدمی نے خیر کے سوا کوئی بات اور حرکت نہیں کی تھی۔ لیکن ان کی مدح کے دوران انصار پر طنز کی، کیونکہ ان کے ایک آدمی نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی تھی۔ چنانچہ کہا :
یمشون مشی الجمال الزہر یعصمہم
ضـــرب إذا عـرد السود التنابیل
''وہ (قریش ) خوبصورت، مٹکے اونٹ کی چال چلتے ہیں۔ اور شمشیر زنی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ ناٹے کھوٹے، کالے کلوٹے لوگ راستہ چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔ ''
لیکن جب وہ مسلمان ہوگیا۔ اور اس کے اسلام میں عمدگی آگئی تو اس نے ایک قصیدہ انصار کی مدح میں کہا اور ان کی شان میں اس سے جو غلطی ہوگئی تھی اس کی تلافی کی۔ چنانچہ اس قصیدے میں کہا :
من سرہ کــرم الحیاۃ فلا یـزل في مـقـنب من صالحی الأنصار
ورثـوا المکارم کابراً عن کابر إن الخیــار ہــم بنو الأخیــــار
''جسے کریمانہ زندگی پسند ہو وہ ہمیشہ صالح انصار کے کسی دستے میں رہے۔ انہوں نے خوبیاں باپ داد ا سے ورثہ میں پائی ہے۔ درحقیقت اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھوں کی اولاد ہوں۔ ''
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں