سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 280
حجة الوداع:
دعوت وتبلیغ کا کام پورا ہوگیا۔ اور اللہ کی الوہیت کے اثبات، اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی اور محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر وتشکیل عمل میں آگئی۔ اب گویا غیبی ہاتف آپ کے قلب وشعور کو یہ احساس دلارہا تھا کہ دنیا میں آپﷺ کے قیام کا زمانہ اختتام کے قریب ہے ، چنانچہ آپﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو ۱۰ ھ میں یمن کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا تو رخصت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے فرمایا : اے معاذ! غالباً تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے۔ بلکہ غالباً میری اس مسجد اور میری اس قبر کے پاس سے گزرو گے۔ اور حضرت معاذؓ یہ سن کر رسول اللہﷺ کی جدائی کے غم سے رونے لگے۔
درحقیقت اللہ چاہتا تھا کہ اپنے پیغمبرﷺ کو اس دعوت کے ثمرات دکھلا دے جس کی راہ میں آپﷺ نے بیس برس سے زیادہ عرصہ تک طرح طرح کی مشکلات اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔ اور اس کی صورت یہ ہو کہ آپﷺ حج کے موقع پر اطرافِ مکہ میں قبائلِ عرب کے افراد و نمائندگان کے ساتھ جمع ہوں۔ پھر وہ آپﷺ سے دین کے احکام وشرائع حاصل کریں۔ اور آپﷺ ان سے یہ شہادت لیں کہ آپﷺ نے امانت ادا کردی۔ پیغام ِ رب کی تبلیغ فرمادی۔ اور امّت کی خیر خواہی کا حق ادا فرما دیا۔
اس مَشیّتِ ایزدی کے مطابق نبیﷺ نے جب اس تاریخی حجِ مبرور کے لیے اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ تو مسلمانانِ عرب جوق درجوق پہنچنا شروع ہوگئے۔ ہر ایک کی آرزو تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کے نقشِ پا کو اپنے لیے نشانِ راہ بنائے۔ اور آپﷺ کی اقتداء کرے۔ یہ بات صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے۔ دیکھئے باب حجۃ النبیﷺ ۱/۳۹۴۔
تاریخ نے اس یاد گار حج کو چار ناموں سے موسوم کیا ہے ، حجۃ البلاغ ، حجۃ الاسلام ، حجۃ الوداع، اور حجۃ الاتمام و الکمال ، اسے حجتہ الوداع کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ حضور ﷺنے صاف صاف فرما دیا تھا:
" مجھ سے مناسک حج سیکھ لو ، میں آئندہ سال شاید حج نہ کرسکوں''
دوسری وجہ یہ ہے کہ آپﷺ لوگوں سے رخصت ہوگئے یا انہیں رخصت کر دیا ، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے کوئی حج نہیں کیا اور (۹۱) دن بعد سفر آخرت فرمایا، حجتہ البلاغ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس خطاب میں قولاً اور مناسک میں فعلاً شریعت عوام الناس تک پہنچا دی گئی اور انھوں نے بہ یک زبان اس کی شہادت دی، اس حج کو حجتہ الاسلام اس لئے کہا گیا کہ اسلام کے تمام دائمی قوانین کی تشریح فرما دی، حج فرض ہونے کے بعد یہ آپﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا ، حجتہ الاتمام والکمال اس لئے کہا گیا کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے تکمیل دین کی آیت نازل فرمائی، حضرت عبدا للہؓ بن عباس اسے حجتہ الوداع کی بہ نسبت حجتہ الاسلام کہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔
آپﷺ کے ارادۂ حج کی اطلاع پر بے شمار لوگ مدینہ میں جمع ہوگئے ، بعض مقامات پر چیچک کی وباء نے لوگوں کو شرکت سے محروم رکھا، کچھ قبائل کے لوگ راستہ میں شامل ہوگئے اور یمن کے لوگوں نے مکہ آکر شمولیت اختیار کرلی، حجتہ الوداع میں شرکاء کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں یعنی (۹۰) ہزار ‘ ایک لاکھ چودہ ہزار اور ایک لاکھ چوبیس ہزار، زرقانی نے ایک لاکھ تیس ہزار لکھی ہے؛ لیکن عام طور پر ایک لاکھ چودہ ہزار کہا جاتا ہے ۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں