تدبر سورۃ الرحمن
از استاد نعمان علی خان
پارٹ 10 آیت(13-14)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
خَلَقَ ٱلْإِنسَٰنَ مِن صَلْصَٰلٍ كَٱلْفَخَّارِ
انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا..
آخری آیت میں ہم نے پڑھا کے اللہ ہم سے کہہ رہا ہے کہ؛
فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں /قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟
ہم نے اس آیت نے یہ جانا کہ انسان بہت ناشکرا ہے, اللہ اس کو کئی موقعے دیتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو دیکھے اور اس کو احساس ہو کہ اللہ نے ہمیں کتنی نعمتیں دی ہیں۔
لیکن وہ پھر بھی اُس کو نظر انداز کردیتا ہے جیسے وہ تحفے ہیں ہی نہیں ۔ ۔
اصل میں جب انسان شکر گزار نہیں ہوتا تو اس کی بھی ایک اصل وجہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہے یعنی اس کی خدمت کی جائے۔
اس کے پاس سماجی معاشرتی تعلیمی معاشی لحاظ سے کوئی مقام ہوتا ہے اور کبھی کبھی نسل، خاندان، پیسے ،شہرت کی بنیاد پر خود کو بڑی چیز سمجھنے لگتا ہے ،غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اور کِبر یا تکبر کے لئے ہمیں امیر یا مشہور ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ چھوٹے سے چھوٹے پروفیشن میں بھی آجاتا ہے ۔
یہاں اللہ ہمیں اپنی اصل سمجھا رہے ہیں تا کہ آئندہ اگر ہم کہنے لگے کہ تمہیں پتہ ہے کہ کس سے بات کر رہے ہو ہم اپنی" اصل" کو یاد رکھیں ۔
خَلَقَ ٱلْإِنسَٰنَ مِن صَلْصَٰلٍ كَٱلْفَخَّارِ
انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا
صلصال کہتے ہیں کھنکھناتی مٹی کو۔
جب کسی صحرا میں ریت پر بہت زیادہ بارش پڑتی ہو اور پھر اس کے بعد شدید گرمی پڑے تو وہ خشک اور سخت ہوجاتی ہے۔ اتنی سخت کہ اس میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔
اور اگر اسے ہاتھ میں اٹھائیں تو پلیٹ کی طرح اٹھ جاتی ہے اور پھر اگر ہم اسے ہلکا سا بھی دبائے تو ہاتھ میں چورا چورا ہوجاتی ہے۔ یہ صلصال ہے۔ ۔ ۔ !
اور وہ ایسی ریت ہوتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس پر نہ کچھ ہوتا ہے اور نہ وہ کسی اور کام آتی ہے ، بالکل بے کار ہوتی ہے، اس کا صرف اور صرف ایک فائدہ ہوتا ہے۔
"فخار - مٹکے یعنی ایسی مٹی جو مٹکے بنانے کے لئے استعمال ہو"۔
اور ریت سے بنے مٹکے عموماً امیروں میں استعمال ہوتے ہیں یا غریبوں میں؟
عموماً غریب استعمال کرتے ہیں یعنی ہماری اصل ایسی مٹی ہے ، جو مٹکے بنانے کے کام آتی ہے۔
اور ہماری اوقات مٹکے کی سی ہے اور مٹکا اگر ٹوٹ جائے تو کسی کام کا نہیں رہتا ۔ ۔ !
اللہ کہہ رہا ہے کہ برتن ہو تم ۔
برتن بھی وہ، جو سب سے نچلے درجے کا ہے ۔
تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو ؟
اللہ انسانوں سے کہہ رہا ہے کہ یہ کبھی مت سمجھنا کہ تم کسی چیز کے حقدار ہو تم بے کار مٹی سے بنے ہوں۔
اور سب امیر اور سب غریب ایک ہی طرح کی مٹی سے بنے ہیں یہ ہماری حقیقت ہے شکرگزاری اور تکبر ساتھ ساتھ ہوتے ہیں
جتنا شکر زیادہ ہو گا ،اتنا تکبر کم ہو گا۔
جتنا شکر کم ہو گا، اتنا تکبر زیادہ ہو گا۔
پچھلی آیت میں اللہ نے کہا تم شکر گزار کیوں نہیں بنتے یعنی تمہارے تکبر کو توڑنا پڑے گا تاکہ تمہارے اندر عاجزی آ جائے ۔
ہم جتنے عاجز ہونگے ، اتنے اللہ کے قریب ہونگے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں