تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 17


تدبر سورۃ الرحمن


از استاد نعمان علی خان


پارٹ 17 آیات(27-28)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم

      

  وَيَبۡقَىٰ وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو ٱلۡجَلَـٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ 

صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی ره جائے گی


جلال عربی میں کسی عظیم الشان چیز کو کہا جاتا ہے جس کو دیکھ کر انسان پر ہیبت طاری ہو جائے کہ کیا عظیم الشان شاندار چیز ہے جیسے کوئی محل ہو یا کوئی شاندار  ہوٹل ہو ۔


اورجلال کے لیے سامعین اور ناظرین چاہیے ، کوئی شاندار ہوٹل کو دیکھے گا تو اس کا جلال ہوگا، کوئی دیکھنے والا نہ ہو تو جلال کیسے ہوگا؟

اس طرح عزت کے لئے بھی عزت کو دینے والا ہونا چاہیے اگر ہم اکیلے رہتے ہیں اور ہم کہیں کہ ہماری بہت عزت ہے تو ایسا نہیں ہوتا کوئی عزت کرنے والا ہوگا تو ہماری عزت ہوگی 

یعنی جلال اور اکرام (عزت ) یہ دونوں باتیں دوسروں پر ڈیپینڈ کرتی ہیں ۔


اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کا پچھلی آیت  سے کیا تعلق ہے 


كُلُّ مَنۡ عَلَيۡہَا فَانٍ 

جو (مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے


اللہ کا ایک منفرد مقام ہے پہلے وہ کہتا ہے کہ اس زمین پر جو کچھ بھی مخلوق ہے سب نے فنا ہو جانا ہے اور پھر اس کے بعد کہتا ہے بس تیرے  رب کی ہستی ہے جو باقی رہے گی ۔۔اور پھر اس کا جلال بھی رہے گا اور پھر اس کی عزت رہے گی 

یعنی چاہے صفحہ ہستی پر عزت کرنے والا کوئی بھی موجود نہ ہو تب بھی اسکی عزت برقرار رہے گی۔۔


کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اللہ کو ہماری نمازوں کی کیا ضرورت ہے اس کا جواب ان آیات میں ہے 


اللہ کو ہمارے شکر کی تعریف کی کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے اس کی تعریف ہمیشہ ہوتی رہے گی ہم اس کا جلال مانے یا نہ مانے اس کا جلال اور اکرام ویسا ہی رہے گا

ہمارے شکر کرنے سے کیا اللہ کے خزانوں میں کوئی اضافہ ہوتا ہے ہوجائے گا اس کی تعریف کرنے سے اس کی شان میں کوئی اضافہ ہوجائے گا؟

پھر اس کی شکر اور تعریف کا فائدہ کس کو ہے؟؟ ہمیں ۔۔ !


کِبرِا - بڑائی-  وہ اصل میں اللہ کے لئے ہے۔


 انسان جب تک شکر نہیں کرے گا وہ اپنے اندر سے کبریا کو نہیں نکال سکتا 

" بڑائی صرف اسی کی ہے آسمان میں بھی اور زمین میں بھی "


جب تک انسان شکر گزار نہیں بنے گا وہ اپنی انا سے نہیں بھاگ سکتا جب تک وہ اپنی انا میں گم رہے گا  اپنے لیے بھی تباہی کرے گا اور انسانیت کے لیے بھی تباہی کرے گا 

جب انسان لالچ اور حرص میں آجاتا ہے تو اس کو کسی کی فکر نہیں ہوتی وہ بس میں میں کرتا ہے کہ مجھے سب کچھ مل جائے 


 لَٮِٕن شَڪَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡ‌ ۖ  

 اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیاده دوں گا  14:7


 تمہیں اپنے لیے زیادہ چاہیے تھا نہ اگر تم شکر گزار بن جاتے ہو تو میں تمہیں اور زیادہ دیتا اور زیادہ دیتا یعنی اگر تم واقعی زیادہ چاہتے  ہو تو شکر گزار بن جاؤ۔

 

 فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ

تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی قدرتوں / طاقتوں / نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ 


یہاں کہا جا رہا ہے کہ اللّه  کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم تو بچو گے بھی نہیں،

 تم تو زندہ ہی نہیں رہو گے۔۔ پھر بھی تم سمجھتے ہو کہ تم اللّه کی نعمتوں کا انکار کرسکتے ہو؟؟

 

ہماری سب سے بڑی کمزوری" موت" ہے_


جاری ہے ۔۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں