سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 89
ہجرت کیوں کی گئی؟
ہجرت کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حسب ذیل امور پر روشنی ڈالی جائے..
ہجرت کیوں کی گئی؟
مکہ کے صنم کدے میں جہاں بیت ﷲ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تھی کہ ساری دنیا میں یہاں سے توحید کی آواز پہنچائی جائے گی وہاں سینکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور انہی کی جے کا نعرہ لگتا تھا.. اس پر عقیدت و ارادت کا ایسا رنگ چڑھ گیا تھا کہ اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا مصیبت کو دعوت دینا تھا اور جان بوجھ کر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا تھا.. دنیا کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب توحید کی صدا بلند کی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی اور کچھ لوگوں نے اس کو قبول کرلیا تو مکہ کے صنم کدہ میں دفعتاً زلزلہ پڑگیا اور بتوں کی حمایت اور توحید کی مخالفت میں ایک ساتھ پوری آبادی نے ہجوم و یلغار سے کام لیا..
وجہ نزاع صرف یہ تھی کہ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم کو اپنے اعتقاد و ضمیر کی آزادی دو , ہم کو اپنی عقل اور اپنی فہم کے فیصلہ پر چلنے دو , اس کے خلاف جبراً نہ ہم پر کوئی چیز لادو نہ اس پر مجبور کرو.. کفار قریش کہتے تھے یہ نہیں ہوگا.. تم کو توحید کا اقرار اور اعلان نہیں کرنا ہوگا بلکہ بتوں کا احترام اور اس کی پوجا کرنی ہوگی اور آبائی دین پر ہی قائم رہنا پڑے گا.. مکہ کے صنم کدہ میں اس کا حق کسی قیمت پر نہیں دیا جائے گا کہ تم توحید کا کلمہ پڑھو بلکہ جبراً تم کو آبائی دین پر لوٹایا جائے گا اور اس کے لئے ہر طرح کی اذیت دی جائے گی اور زندگی اجیرن کر دی جائے گی..
معاملہ جب اس حد کو پہنچ گیا کہ دین پر قائم رہنا مکہ کی مشرکانہ فضاء میں نا ممکن ہو گیا تو مجبوراً دین کو بچانے کے لئے مسلمانوں نے اپنا گھر چھوڑا , اپنا وطن چھوڑا , اعزاء و اقارب کو چھوڑا , مال و متاع کو چھوڑا اور جان سے بھی زیادہ عزیز اور محترم چیز بیت ﷲ کو چھوڑا جس پر ان کو بھی اتنا ہی حق تھا جتنا کفار قریش کو تھا..
ہجرت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مومن لوگ اپنے دین کی خاطر ﷲ اور ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس ڈر سے بھاگتے تھے کہ وہ فتنہ میں نہ مبتلا کردئیے جائیں یعنی ان کو ارتداد پر مجبور نہ کیا جائے.. حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی.. اس کا مقصد صرف خدا کی رضا تھی..
جب مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ ہجرت کرگئے اور صرف پیغمبر عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چند گنے چنے مسلمان رہ گئے اور سب کے ظلم و ستم کے آپﷺ ہدف بن گئے اور معاملہ اس حد تک پہنچا کہ آپ کے قتل کے لئے متحدہ قبائل کے نوجوانوں نے متحدہ تجویز کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور اسلام کو مٹا دینے کی سازش اپنی آخر حد کو پہنچ گئی تو ﷲ تعالیٰ نے آپ کو بھی ہجرت کا حکم دیا اور آپ عین محاصرہ کی حالت میں ان کے بیچ سے ہوکر نکل گئے اور بیت ﷲ چھوڑنے پر مجبور ہوئے..
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاشانۂ نبوت سے ہجرت کے خیال سے نکلے تو بیت ﷲ پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور فرمایا.. "مکہ ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے فرزند مجھ کو ہجرت پر مجبور نہ کرتے تو میں مکہ نہ چھوڑتا.."
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے ہر طرح کے خطرات سے محفوظ مدینہ منورہ پہنچ کر مہاجرین و انصار سے مل گئے تو مکہ اور مدینہ دونوں کی دنیا میں عجیب طرح کا انقلاب رونما ہوا اور دونوں جگہ نئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں.. نئے نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں جگہ کے لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پر خطرات کے نئے نئے بادل نظر آنے لگے..
ہجرت نبوی کا اثر مکہ پر یہ ہوا کہ...
______
(1) قریش کو اپنی سعیٔ ناکام پر ندامت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا.. ندامت اس لئے کہ عین محاصرہ کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بیچ سے ہو کر نکل گئے اور ان کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی.. غصہ اس لئے آیا کہ اسلام کے استحصال کی وہ سازش جو دارالندوہ میں قبائل عرب کے متحدہ اجتماع اور اجلاس عام میں ردو کد کے بعد طے پائی تھی , ناکام ہوگئی..
(2) یہ خطرہ جس کے انسداد کے لئے دارالندوہ میں اجلاس عام بلایا گیا تھا کہ مسلمان مدینہ منورہ میں جاکر انصار کی حمایت میں طاقت پکڑتے جارہے ہیں اور اسلام پھیلتا جارہا ہے کہیں مضبوط طاقت نہ بن جائیں , اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ پہنچ جانے کے بعد یہ خطرہ تصور اور خیال کی حد سے نکل کر واقعہ بن کر سامنے آگیا جس سے ان کے غیظ و غضب میں اور اشتعال پیدا ہوگیا..
(3) مسلمانوں میں اور کفار قریش میں دراصل وجہ مخالفت یہ تھی کہ بت پرستی کے تمام قبائل عرب کا سینکڑوں برس سے آبائی اور واحد مشترک دین تھا.. اسلام اس کی جڑ کھودتا تھا اور جن بتوں کو وہ معبود سمجھتے تھے اور جن کے لئے وہ ہر روز اپنی پیشانی رگڑتے اور اپنا حاجت روا عام سمجھتے تھے , اسلام ان کو حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا تھا.. اب وہ مدینہ میں مسلمانوں کے اجتماع سے ڈرے کہ اسلامی تحریک اگر قائم رہی اور پھیلتی رہی اور اس کو پھیلنے , پنپنے اور مدینہ کی چار دیواری سے باہر نکلنے اور جمنے کا موقع دیا گیا تو ان کے سینکڑوں برس کے آبائی دین کے طلسم کا برباد ہوجانا یقینی تھا..
(4) اسی کے ساتھ قریش نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان خانماں برباد اور سخت جان مسلمانوں کو اگر چھوٹ دے دی جائے اور ان کی اسلامی تحریک سے پرخاش نہ کی جائے تو تمام عرب میں قریش کو جو تفوق حاصل ہے , وہ جاتا رہے گا اور عظمت و مرجعیت عام کا جو تاج ان کے سر پر ہے , وہ اتر جائے گا..
(5) پھر ان کے معاش کا دارومدار چونکہ شام و فلسطین کی تجارت پر تھا اور وہاں سامان تجارت لے کر جانے کے لئے جو راہ سب سے قریب تر تھی , وہ مدینہ کے قریب سے ہو کر جاتی تھی اس لئے وہ اس یقین پر مجبور ہوگئے کہ اگر اس اسلامی تحریک کو قوت پکڑنے کی مہلت دی جائے گی تو وہ تجارت کی راہ میں روک ٹوک کریں گے اور اس طرح قریش معاشی کاروبار کے تعطل سے بے موت مرجائیں گے..
ہجرت نبوی کا اثر مدینہ پر یہ ہوا کہ...
________
(1) انصار اول روز سے جب انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر عقبہ میں بیعت کی تھی , یہ سمجھتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دینا دنیا بھر سے عموماً اور قریش سے خصوصاً جنگ مول لینی ہے.. چنانچہ عین بیعت کے وقت بیعت کرنے والوں میں سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ تمہیں خبر ہے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو..؟ یہ عرب و عجم , جن و انس سے اعلان جنگ ہے.." تو سب نے کہا تھا کہ ہاں ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں.. چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو سب سے پہلا اثر یہ پڑا کہ مدینہ جو اب تک تمام بیرونی خطرات سے امن میں تھا , اب قریش اور قبائل عرب کی اسلام دشمنی کے باعث مخالفین اسلام کے قتل و غارت کا آماجگاہ بن گیا..
(2) انصار کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلمان جب پہلی دفعہ ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے تو قریش کی سفارت نجاشی کے پاس گئی تھی کہ یہ مہاجرین ہمارے قومی مجرم ہیں لہذا ہمارے حوالے کردئیے جائیں , اس لئے ان کو خطرہ تھا کہ مدینہ میں قریش ان قومی مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے دفعتاً فوجی دستہ لے کر نہ پہنچ جائیں.. چنانچہ انصار و مہاجرین ان خطرات کے تحت راتوں کو ہتھیار باندھ کر سوتے تھے.. خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حال تھا کہ راتوں کو جاگ کر بسر کرتے تھے..
(3) عبدﷲ ابن اُبی جو انصار کے قبیلہ اوس و خزرج کا متفقہ لیڈر اور سردار تھا اور جس کی تاج پوشی کی رسم متفقہ طور پر طے پاچکی تھی اور انصار نے اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کرنے کے لئے تاج تیار کرلیا تھا اور ہنوز اس نے منافقت کی راہ میں اسلام بھی قبول نہیں کیا تھا , ہجرت کی وجہ سے اس کی رسم تاج پوشی ناکام ہوگئی.. اس کا اس پر اور اس کے ساتھیوں پر خصوصی اثر کا پڑنا لازمی امر تھا.. وہ سمجھتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی حکومت چھین لی.. نتیجہ یہ ہوا کہ قدرتی طورپر مدینہ منورہ میں حاسدوں کی ایک منافق جماعت پیدا ہوگئی.. یہ نہایت خطرناک پارٹ ادا کرتی تھی اور ان سے اس امر کا بھی ہر وقت خطرہ رہتا تھا کہ کس وقت ان کی قریش سے سازباز ہوجائے.. چنانچہ چند مرتبہ ایسا ہوا کہ عبدﷲ بن اُبی کی وجہ سے مدینہ کے اندر خون کا بادل برستے برستے رہ گیا..
(4) حوالی مدینہ میں یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع , بنو نضیر , بنو قریظہ بستے تھے.. یہ لوگ عموماً دولت مند , زمین دار اور تجارت پیشہ تھے اس لئے مدینہ منورہ کے ملکی اور تجارتی معاملہ میں ان کو چودھراہٹ کی حیثیت حاصل تھی.. پھر انصار چونکہ بت پرست تھے اس لئے ان پر یہودیوں کا اچھا خاصہ مذہبی اور علمی اثر بھی تھا.. انصار ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی عافیت تسلیم کرتے تھے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد دفعتاً یہ فوقیت جاتی رہی اور یہود کی چودھراہٹ پر بھی آنچ آگئی اور انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کی وجہ سے ان کے اقتدار کو , ان کے جابرانہ کاروبار کو , ان کے سودی لین دین کو اور مذہبی وقار کو سخت دھچکہ لگا.. اس کی وجہ سے ان میں سخت ناراضگی پیدا ہوگئی اور اسلام کی خانہ بربادی کا عزم کرلیا اور صرف عزم نہیں کیا بلکہ عملاً وہ طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے..
ان حالات میں مدینہ منورہ داخلی اور خارجی حیثیت سے غیر محفوظ تھا.. داخلی نزاکت کا یہ حال تھا کہ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ جب مرنے لگے تو انھوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مرجاؤں تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر نہ کرنا.. ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی حادثہ گذرجائے..
خارجی حالت یہ تھی کہ قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردی تھیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں (فوجی دستے) مدینہ کے اطراف میں گشت لگاتی رہتی تھیں..
===========>جاری ھے.
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری