سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 94


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 94 

ام معبد اور آپ ﷺ کے اوصاف وکمالات کا نقشہ: 


اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر "اُمّ معبد خزاعیہ" کے خیمے سے ہوا، یہ خیمہ قدید کے اطرف میں مشلل کے اندر واقع تھا، اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے۔

اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں، خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس کچھ ہے؟ بولیں: "واللہ!  ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی، بکریاں بھی دور دراز ہیں۔" یہ قحط کا زمانہ تھا-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے، فرمایا: "ام معبد!  یہ کیسی بکری ہے؟" بولیں: "اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے؟ بولیں: "وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اجازت ہے کہ اسے دوھ لوں؟" بولیں: "ہاں! اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوھ لو۔"

اس گفتگو کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا، اللہ کا نام لیا اور دعا کی، بکری نے پاؤں پھیلا دیئے، تھن میں بھرپور دودھ اُتر آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگیا، پھر ام معبد کو پلایا، وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا، وہ بھی شکم سیر ہوگئے تو خود پیا، پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنا دودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر "ابو معبد" اپنی کمزور بکریوں کو جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں، ہانکتے ہوئے آپہنچے، دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے، پوچھا: "یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی؟"

بولیں:"واللہ! کوئی بات نہیں، سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا۔"

ابومعبد نے کہا: "یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے، جسے قریش تلاش کررہے ہیں، اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو۔

اس پر اُمِ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف وکمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے، اُم معبد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تو کوئی تعارف تھا، نہ کسی طرح کا تعصب، بلکہ جو کچھ دیکھا من وعن کہہ دیا، اصل متن عربی میں دیکھنے کی چیز ہے، اس کا جو ترجمہ مؤلف "رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہے: 

" پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہر کو نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراغ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مردمک، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دل بستگی لئے ہوئے،  دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ،  زیبندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں، مخدوم، مطاع، نہ کوتاہ سخن، نہ فضول گو۔" (زاد المعاد، جلد دوم رحمۃ للعالمین : قاضی سلیمان منصورپوری) 

اُم معبد کی یہ قلمی تصویر سیرت کا ایک انمول خزانہ ہے، بعد میں دونوں میاں بیوی نے حضور صلی اللہ علی وسلم کے پاس آکر اسلام قبول کیا-


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 94  ام معبد اور آپ ﷺ کے اوصاف وکمالات کا نقشہ:  اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وس...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 93


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 93 

راستے کے چند واقعات:


صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ہم لوگ (غار سے نکل کر) رات بھر اور دن میں دوپہر تک چلتے رہے، جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہوگیا، راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھلائی پڑی، جس کے سائے پر دھوپ نہیں آئی تھی، ہم وہیں اتر پڑے۔

میں نے اپنے ہاتھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ سو جائیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد وپیش کی دیکھ بھال کیے لیتا ہوں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور میں آپ کے گردوپیش کی دیکھ بھال کے لیے نکلا، ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے، وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا تھا،  میں نے اس سے کہا: "اے جوان! تم کس کے آدمی ہو؟" اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا۔
میں نے کہا: "تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے؟" اس نے کہا: "ہاں!" میں نے کہا: "دوھ سکتا ہوں؟" اس نے کہا: "ہاں" اور ایک بکری پکڑی۔ میں نے کہا: "ذرا تھن کو مٹی، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کرلو۔" اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔

میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، لیکن گوارا نہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا، یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا، اس کے بعد میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! پی لیجئے، آپ نے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا؟" میں نے کہا: "کیوں نہیں" اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے۔ (صحیح البخاری ۱/۵۱۰)

اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ کا گزر "اُمّ معبد خزاعیہ" کے خیمے سے ہوا، (اس اہم واقعہ کا تفصیلی ذکر اگلی قسط میں ہوگا)

اس کے بعد آپ مقام حجفہ پہنچے جو مکہ کی شاہراہ پر ہے اور جہاں سے مدینہ کی طرف راستہ نکلتا ہے، وہاں بیت اللہ اور مکہ کی یاد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اُداسی کے آثار نمایاں ہوئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ سورۂ قصص کی آیت ۸۵ نازل ہوئی: 

*"اے پیغمبر! جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے، کہہ دیجئے کہ میرا رب اُسے بھی بخوبی جانتا ہے، جو ہدایت لایا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے۔" (سورہ قصص ۸ ۲: ۸۵)

اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تسکین ہوئ، یہاں سے یہ مختصر قافلہ یثرب کی جانب روانہ ہوا، اثنائے راہ میں بنی اسلم کا سردار "بریدہ بن خصیب اسلمی" ملا، جس کے ساتھ ستر (۷۰) آدمی تھے، قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری پر ایک سو اونٹ کے انعام کا اعلان کیا تھا اور بریدہ اسی انعام کے لالچ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا تھا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شرفِ ہم کلامی کا موقع ملا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت متاثرہوا اور ستر (۷۰) ساتھیوں سمیت مسلمان ہوگیا اور آپ کے ساتھ شریک سفر ہوگیا۔

تاریخ اسلام کا پہلا پرچم: 

جب یہ قافلہ قبا کے قریب پہنچا تو بریدہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:  "کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ قافلۂ نبوت کے ساتھ آپ کا پرچم بھی موجود ہو-" چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عمامہ اتارا، اپنے ہاتھ سے اسے نیزہ پر باندھا اور بطور پرچم بُریدہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا، انہوں نے اسے ہوا میں لہرایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم بردار کی حیثیت سے آگے آگے چلنے لگے، یہ تایخ اسلام کا پہلا پرچم تھا۔ (قاضی سلیمان منصور پوری : رحمتہ للعالمین مصباح الدین شکیل : سیرت احمد مجتبیٰ ابن جوزی : الوفا)

راستہ میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے آرہے تھے، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خسر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا اور کہا کہ قافلہ اور مال کو مکہ پہنچا کر ہجرت کرکے آجاؤں گا۔

ادھرمکے میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے، مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہیں پڑ رہا تھا، آواز یہ تھی :

جزی اللہ رب العرش خیر جزائہ رفیقین حـلا خیمتی أم معبـد
ہمـا نـزلا بالبـر وارتحـلا بـــہ وأفلح من أمسی رفیق محمـد
فیـا لقصـی مـا زوی اللہ عنکـم بہ من فعال لا یجازی وسودد
لیہن بـنی کـعب مـکان فتاتہـم ومقعدہـا للمؤمنیـن بمرصد
سلوا أختکـم عن شأتہـا وإنائہا فإنکم إن تسألوا الشـاۃ تشہـد

''اللہ رب العرش ان دورفیقوں کو بہتر جزادے، جو امِ معبد کے خیمے میں نازل ہوئے، وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیق ہوا وہ کامیاب ہوا، ہائے قُصی!  اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں،  بنوکعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو، تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو، تم خود بکری سے پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی-

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدھر کا رخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیریں مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہو آیا، لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، اس کی آواز سن رہے تھے، لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا۔" وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدھر کا رُخ فرمایا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُخ مدینہ کی جانب ہے۔

(زاد المعاد ۲/۵۳، ۵۴۔ مستدرک حاکم ۳/۹، ۱۰حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے- اسے بغوی نے بھی شرح السنہ ۱۳/۲۶۴ میں روایت کیا ہے)۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 93  راستے کے چند واقعات: صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرما...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 92


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 92 

نبیﷺ کی ہجرت اور مددگار لوگ: 


جب جستجو کی آگ بجھ گئی، تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا، عبداللہ بن اریقط لَیْثی سے جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا، یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا، لیکن قابل اطمینان تھا، اس لیے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں اور طے ہوا تھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا،  چنانچہ جب دوشنبہ کی رات جو ربیع الاول 1 ھ کی چاند رات تھی، (مطابق 16 ستمبر 622 ء) عبداللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا۔

ادھر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا (بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی زاد سفر لے کر آئیں، مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں، جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے، انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دو حصوں میں چاک کرکے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا، اسی وجہ سے ان کا لقب "ذاتُ النّطاقین" پڑ گیا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۵ ، ابن ہشام ۱/۴۸۶)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کوچ فرمایا، حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے، دلیل راہ عبداللہ بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا، غار سے روانہ ہوکر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دور تک لے گیا، پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا، پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے، شمال کی طرف مڑ گیا، یہ راستہ ساحل بحرِ احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذو نادر ہی کوئی چلتا تھا۔

اس سفر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف رہا کرتے تھے، یعنی سواری پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے، چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے،  اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کم توجہ جاتی تھی، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھتا کہ آپ کے آگے کون آدمی ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے، فرماتے: "یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے۔" اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں، حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے میں جن مقامات سے گزرے، ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب راہنما آپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیریں مکہ سے لے چلا، پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیریں عسفان سے راستہ کاٹا، پھر زیریں امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قدید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کاٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہوا خرار سے گزرا، پھر ثنیۃ المرہ سے، پھر لقف سے، پھر بیابان لقف سے گزرا، پھر مجاح کے بیابان میں پہنچا اور وہاں سے پھر مجاح کے موڑ سے گزرا، پھر ذی الغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا، پھر ذی کشر کی وادی میں داخل ہوا، پھر جداجد کا رخ کیا، پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابان تعہن کے وادئ ذوسلم سے گزرا، وہاں سے عبابید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا، پھر عرج میں اترا، پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیۃ العائر میں چلا، یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قباء پہنچ گیا-


==================> جاری ہے ۔۔۔  

سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 92  نبیﷺ کی ہجرت اور مددگار لوگ:  جب جستجو کی آگ بجھ گئی، تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مس...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 91


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 91 

گھر سے غارثور تک: 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 28 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622ء کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان ومال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور ان کے ہمراہ مکہ سے نکلے اور نکلتے ہوئے حزدرہ کے مقام پر کعبۃ اللہ کی طرف منہ کیا اور بڑے دکھ سے فرمایا:  

"اے مکہ! اللہ کی قسم! تو مجھے روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہے اور خدا کو بھی اپنی زمین میں تو ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہے، اگر تیرے باشندوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چھوڑتا۔

چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپ کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر فوراً نظر اٹھے گی، وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے، اس لیے آپ نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا، یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے، یہ نہایت بلند , پرپیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے، یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے، اس لیے آپ کے پاؤں زخمی ہوگئے، بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جا پہنچے جو تاریخ میں ''غارِثور'' کے نام سے معروف ہے۔

غار کے پاس پہنچ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے لیے ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوں، پہلے میں داخل ہو کر دیکھ لیتا ہوں، اگر اس میں کوئی (ضرر رساں) چیز ہوئی تو آپ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔" چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا، ایک جانب چند سوراخ تھے، انہیں اپنا تہبند پھاڑ کر بند کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے، اتفاق سے سامنے کا ایک سوراخ بند نہیں ہوا تھا، جسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پاؤں کی ایڑھی رکھ کر بند کیا، اس سوراخ میں ایک سانپ (یا کوئی زہریلا کیڑا) رہتا تھا،  جس نے آپ رضی اللہ عنہ کو ڈس لیا، مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ نہ جائیں، لیکن درد و تکلیف کی شدت سے ان کے آنسو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر ٹپک گئے (اور آپ کی آنکھ کھل گئی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "ابوبکر! تمہیں کیا ہوا؟"

عرض کی: "میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر لعاب دہن لگادیا اور تکلیف جاتی رہی۔ یہ بات زرین نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر یہ زہر پھوٹ پڑا (یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا) اور یہی موت کا سبب بنا۔ (دیکھئے مشکوٰۃ 2/556 , باب مناقب حضرت ابی بکر رضی اللہ عنہ)

یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار کی راتیں غار میں چھپ کر گزاریں۔ اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی یہیں رات گزارتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک، سخن فہم نوجوان تھے، سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے، گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے، پھر آپ دونوں کے خلاف کے سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔

ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام "عامر بن فُہَیْرَہ" رضی اللہ عنہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے، اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے، پھر صبح تڑکے ہی حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بکریاں ہانک کر چل دیتے، تینوں رات انہوں نے یہی کیا، مزید یہ کہ حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے، تاکہ نشانات مٹ جائیں۔

ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبۂ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہوگیا، انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اتارا، آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے، لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا برآمد ہوئیں، ان سے پوچھا: "تمہارے ابا کہاں ہیں؟"

انہوں نے کہا: "واللہ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہاں ہیں۔" اس پر خبیث ابوجہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گرگئی، اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کرکے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں، چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو، نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا، اسی طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یا مردہ حاضر کرے گا، اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گراں قدر انعام دیا جائے گا۔

اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشاناتِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں، وادیوں اور نشیب وفراز میں ہر طرف بکھر گئے، لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا، تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے، لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا، سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں، میں نے کہا: "اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا، مجھے اپنی جان کا غم نہیں، اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اُمت ہلاک ہو جائے گی۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ابوبکر! خاموش رہو، (ہم ) دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: "ابوبکر! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟'' وہ غار پر گھومتے رہے، لیکن تقدیر الہٰی یہ تھی کہ وہ لوگ دیکھ نہ سکیں۔

یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اضطراب اپنی جان کے خوف سے نہ تھا، بلکہ اس کا واحد سبب وہی تھا جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب قیافہ شناسوں کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ رضی اللہ عنہ کا غم فزوں تر ہوگیا اور آپ نے کہا: "اگر میں مارا گیا تو میں محض ایک آدمی ہوں، لیکن آگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیے گئے تو پوری امت ہی غارت ہوجائے گی۔"

اور اسی موقع پر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: "غم نہ کرو، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرف فرمایا، چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس پلٹ گئے، جب آپ کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔

انعام کی لالچ میں کئی لوگ تلاش میں نکلے تھے، بنی مدلج کا سردار "سُراقہ بن مالک بن جعشم" بھی تیر کمان لے کر عود نامی گھوڑے پر سوار ہوا اور تیر کمان لے کر آپ کی تلاش میں نکلا، راستہ میں ٹھوکر لگنے سے گھوڑا گر گیا، عرب کے قاعدہ کے مطابق اس نے ترکش سے فال کے تیر نکالے کہ تعاقب کرنا چاہیے یا نہیں، فال الٹی نکلی مگر لالچ میں گھوڑا دوڑایا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چو طرف نظر رکھے ہوئے تھے، گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کوئی ہمارے تعاقب میں آرہا ہے۔" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "گھبرانے کی ضرورت نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"

سُراقہ کے گھوڑے نے دوبارہ ٹھوکر کھائی تو اس نے پھر فال دیکھی جو اس کی مرضی کے خلاف نکلی، مگر سو اونٹ کا لالچ کچھ کم نہ تھا، پھر جب وہ گھوڑے پر سوار ہوکر بڑھا تو ٹھوکر کھا کر گرا اور اب کی مرتبہ گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے، اب ہمت ٹوٹ گئی اور سمجھ گیا کہ غیبی طاقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محافظ ہے، قریب آکر امان طلب کی اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تو زمین نے گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دئیے، عرض کیا: "مجھے امان نامہ عطا ہو۔" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان کا فرمان لکھ کر دیا، جسے سُراقہ نے محفوظ رکھا اور آٹھ سال بعد فتح مکہ، حنین اور طائف کے غزوات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے اور جعرانہ میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو اُس وقت سُراقہ نے حاضر ہو کر امان نامہ پیش کیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے بہت کچھ عطا فرمایا، سُراقہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا، جب جانے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "وہ بھی کیا وقت ہوگا، جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے۔" حیران ہو کر پوچھا: "کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن"؟ فرمایا: "ہاں!"

بعد کے واقعات نے بتلایا کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایران فتح کرکے وہاں کی ساری دولت مدینہ روانہ کی، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سُراقہ رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ کسریٰ کے کنگن اسے پہنائے جائیں، پھر زرِبفت کا کمر پٹہ، ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تاج پہنایا گیا اور فرمایا: "ہاتھ اٹھاؤ اور کہو! تعریف ہے اس اللہ کی جس نے یہ چیزیں کسریٰ بن ہرمزسے چھین لیں، جو کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انہیں بنی مدلج کے ایک بدو سُراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیں۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کی تکبیر کہتے رہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 91  گھر سے غارثور تک:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 28 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622ء کی در...

سیرت النبی کریمﷺ ۔۔۔ قسط: 90


سیرت النبی کریمﷺ ۔۔۔ قسط: 90

ہجرت کی اجازت

جب دارالندوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی مجرمانہ قرار داد طے ہوچکی تو حضرت جبریل علیہ السلام اپنے رب تبارک وتعالیٰ کی وحی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کی تَعِیین بھی فرمادی کہ آپ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے.

اس اطلاع کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھیک دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرما لیں.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرے پر کپڑا ڈالے ہوئے تشریف لائے.
یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ تشریف نہیں لایا کرتے تھے.
آپ اندر داخل ہوئے , پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا.
"تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹادو.."

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر میرے باپ فدا ہوں.
بس آپ کی اہلِ خانہ ہی ہیں.."
(یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا. ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ہو چکا تھا)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا. "اچھا ! مجھ کو ہجرت کی اجازت ہو گئی ہے.."

عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے بارے میں کیا حکم ہے..؟"

فرمایا.. "تم ساتھ چلو گے.."

عرض کیا.. "میں نے اس غرض کے لئے دو اونٹنیاں تیار رکھی ہیں. ان میں سے جو پسند ہو وہ حاضر ہے.."

فرمایا.. "اچھا مگر قیمت کے ساتھ.."

واقدی نے اس اونٹنی کا نام قصواء اور ابنِ اسحاق نے جدعآ لکھا ہے.
اس کے بعد ہجرت کا پروگرام طے کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے.

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی سے ایک راستوں کے ماہر شخص عبداللہ بن اُریقط کا اجرت پر انتظام کر رکھا تھا جو بنی الدّیل سے تعلق رکھتا تھا.
اگرچہ مشرک تھا مگر قابل اعتماد تھا.
اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اور کہا کہ جس جگہ بلایا جائے , پہنچ جانا.

ادھر قریش کے اکابر مجرمین نے اپنا سارا دن مکے کی پارلیمان دارالندوہ کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزاری اور اس مقصد کے لیے ان اکابر مجرمین میں سے گیارہ سردار منتخب کیے گئے.
ابن سعد کے مطابق ان بارہ سرداروں کے نام یہ ہیں.

1.. ابو جہل
2.. حکم بن العاص
3.. عقبہ بن ابی معیط
4.. نضر بن حارث
5.. اُمیہ بن خلف
6.. حارث بن قیس بن الغیطلہ
7.. زمعہ بن الاسود
8.. طعیمہ بن عدی
9.. ابو لہب بن عبدالمطلب
10.. ابی بن خلف
11.. بنیّہ بن حجاج
12.. منبّہ بن حجاج

جب رات ہوئی تو حسب قرار داد یہ بارہ سرداران قریش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کے گرد جمع ہوگئے کہ آپ سوجائیں تو یہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑیں.

محاصرہ کی اطلاع بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہو چکی تھی.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ شروع رات میں عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے اور آدھی رات کے بعد گھر سے نکل کر مسجد حرام تشریف لاتے اور وہاں تہجد کی نماز ادا فرماتے.
اس رات آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر سو جائیں اور آپ کی سبز حضرمی چادر اوڑھ لیں.
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے) یہ بھی بتلادیا کہ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی.

ادھر رات جب ذرا تاریک ہوگئی اور ہر طرف سناٹا چھا گیا اور عام لوگ اپنی خواب گاہوں میں جاچکے تو مذکورہ بالا افراد نے خفیہ طور پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا رخ کیا اور دروازے پر جمع ہوکر گھات میں بیٹھ گئے.
وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر سمجھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوئے ہوئے ہیں.
اس لیے انتظار کرنے لگے کہ آپ اٹھیں اور باہر نکلیں تو یہ لوگ یکایک آپ پر ٹوٹ پڑیں اور مقررہ فیصلہ نافذ کرتے ہوئے آپ کو قتل کردیں.

ان لوگوں کو پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہوکر رہے گی.
یہاں تک کہ ابوجہل نے بڑے متکبرانہ اور پُرغرور انداز میں مذاق واستہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے کہ اگر تم لوگ اس کے دین میں داخل ہوکر اس کی پیروی کرو گے تو عرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤ گے. پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات جیسی جنتیں ہوں گی اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ان کی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئیں گے. پھر تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے اور تمہارے لیے آگ ہوگی جس میں جلائے جاؤگے.."

===========>جاری ھے.


سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

سیرت النبی کریمﷺ ۔۔۔ قسط: 90 ہجرت کی اجازت جب دارالندوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی مجرمانہ قرار داد طے ہوچ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 89


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 89 

ہجرت کیوں کی گئی؟

ہجرت کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حسب ذیل امور پر روشنی ڈالی جائے..

ہجرت کیوں کی گئی؟

مکہ کے صنم کدے میں جہاں بیت ﷲ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تھی کہ ساری دنیا میں یہاں سے توحید کی آواز پہنچائی جائے گی وہاں سینکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور انہی کی جے کا نعرہ لگتا تھا.. اس پر عقیدت و ارادت کا ایسا رنگ چڑھ گیا تھا کہ اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا مصیبت کو دعوت دینا تھا اور جان بوجھ کر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا تھا.. دنیا کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب توحید کی صدا بلند کی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی اور کچھ لوگوں نے اس کو قبول کرلیا تو مکہ کے صنم کدہ میں دفعتاً زلزلہ پڑگیا اور بتوں کی حمایت اور توحید کی مخالفت میں ایک ساتھ پوری آبادی نے ہجوم و یلغار سے کام لیا..

وجہ نزاع صرف یہ تھی کہ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم کو اپنے اعتقاد و ضمیر کی آزادی دو , ہم کو اپنی عقل اور اپنی فہم کے فیصلہ پر چلنے دو , اس کے خلاف جبراً نہ ہم پر کوئی چیز لادو نہ اس پر مجبور کرو.. کفار قریش کہتے تھے یہ نہیں ہوگا.. تم کو توحید کا اقرار اور اعلان نہیں کرنا ہوگا بلکہ بتوں کا احترام اور اس کی پوجا کرنی ہوگی اور آبائی دین پر ہی قائم رہنا پڑے گا.. مکہ کے صنم کدہ میں اس کا حق کسی قیمت پر نہیں دیا جائے گا کہ تم توحید کا کلمہ پڑھو بلکہ جبراً تم کو آبائی دین پر لوٹایا جائے گا اور اس کے لئے ہر طرح کی اذیت دی جائے گی اور زندگی اجیرن کر دی جائے گی.. 

معاملہ جب اس حد کو پہنچ گیا کہ دین پر قائم رہنا مکہ کی مشرکانہ فضاء میں نا ممکن ہو گیا تو مجبوراً دین کو بچانے کے لئے مسلمانوں نے اپنا گھر چھوڑا , اپنا وطن چھوڑا , اعزاء و اقارب کو چھوڑا , مال و متاع کو چھوڑا اور جان سے بھی زیادہ عزیز اور محترم چیز بیت ﷲ کو چھوڑا جس پر ان کو بھی اتنا ہی حق تھا جتنا کفار قریش کو تھا..

ہجرت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مومن لوگ اپنے دین کی خاطر ﷲ اور ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس ڈر سے بھاگتے تھے کہ وہ فتنہ میں نہ مبتلا کردئیے جائیں یعنی ان کو ارتداد پر مجبور نہ کیا جائے.. حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی.. اس کا مقصد صرف خدا کی رضا تھی.. 

جب مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ ہجرت کرگئے اور صرف پیغمبر عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چند گنے چنے مسلمان رہ گئے اور سب کے ظلم و ستم کے آپﷺ ہدف بن گئے اور معاملہ اس حد تک پہنچا کہ آپ کے قتل کے لئے متحدہ قبائل کے نوجوانوں نے متحدہ تجویز کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور اسلام کو مٹا دینے کی سازش اپنی آخر حد کو پہنچ گئی تو ﷲ تعالیٰ نے آپ کو بھی ہجرت کا حکم دیا اور آپ عین محاصرہ کی حالت میں ان کے بیچ سے ہوکر نکل گئے اور بیت ﷲ چھوڑنے پر مجبور ہوئے.. 

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاشانۂ نبوت سے ہجرت کے خیال سے نکلے تو بیت ﷲ پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور فرمایا.. "مکہ ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے فرزند مجھ کو ہجرت پر مجبور نہ کرتے تو میں مکہ نہ چھوڑتا.."

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے ہر طرح کے خطرات سے محفوظ مدینہ منورہ پہنچ کر مہاجرین و انصار سے مل گئے تو مکہ اور مدینہ دونوں کی دنیا میں عجیب طرح کا انقلاب رونما ہوا اور دونوں جگہ نئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں.. نئے نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں جگہ کے لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پر خطرات کے نئے نئے بادل نظر آنے لگے..

ہجرت نبوی کا اثر مکہ پر یہ ہوا کہ...
______

(1) قریش کو اپنی سعیٔ ناکام پر ندامت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا.. ندامت اس لئے کہ عین محاصرہ کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بیچ سے ہو کر نکل گئے اور ان کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی.. غصہ اس لئے آیا کہ اسلام کے استحصال کی وہ سازش جو دارالندوہ میں قبائل عرب کے متحدہ اجتماع اور اجلاس عام میں ردو کد کے بعد طے پائی تھی , ناکام ہوگئی..

(2) یہ خطرہ جس کے انسداد کے لئے دارالندوہ میں اجلاس عام بلایا گیا تھا کہ مسلمان مدینہ منورہ میں جاکر انصار کی حمایت میں طاقت پکڑتے جارہے ہیں اور اسلام پھیلتا جارہا ہے کہیں مضبوط طاقت نہ بن جائیں , اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ پہنچ جانے کے بعد یہ خطرہ تصور اور خیال کی حد سے نکل کر واقعہ بن کر سامنے آگیا جس سے ان کے غیظ و غضب میں اور اشتعال پیدا ہوگیا..

(3) مسلمانوں میں اور کفار قریش میں دراصل وجہ مخالفت یہ تھی کہ بت پرستی کے تمام قبائل عرب کا سینکڑوں برس سے آبائی اور واحد مشترک دین تھا.. اسلام اس کی جڑ کھودتا تھا اور جن بتوں کو وہ معبود سمجھتے تھے اور جن کے لئے وہ ہر روز اپنی پیشانی رگڑتے اور اپنا حاجت روا عام سمجھتے تھے , اسلام ان کو حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا تھا.. اب وہ مدینہ میں مسلمانوں کے اجتماع سے ڈرے کہ اسلامی تحریک اگر قائم رہی اور پھیلتی رہی اور اس کو پھیلنے , پنپنے اور مدینہ کی چار دیواری سے باہر نکلنے اور جمنے کا موقع دیا گیا تو ان کے سینکڑوں برس کے آبائی دین کے طلسم کا برباد ہوجانا یقینی تھا..

(4) اسی کے ساتھ قریش نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان خانماں برباد اور سخت جان مسلمانوں کو اگر چھوٹ دے دی جائے اور ان کی اسلامی تحریک سے پرخاش نہ کی جائے تو تمام عرب میں قریش کو جو تفوق حاصل ہے , وہ جاتا رہے گا اور عظمت و مرجعیت عام کا جو تاج ان کے سر پر ہے , وہ اتر جائے گا..

(5) پھر ان کے معاش کا دارومدار چونکہ شام و فلسطین کی تجارت پر تھا اور وہاں سامان تجارت لے کر جانے کے لئے جو راہ سب سے قریب تر تھی , وہ مدینہ کے قریب سے ہو کر جاتی تھی اس لئے وہ اس یقین پر مجبور ہوگئے کہ اگر اس اسلامی تحریک کو قوت پکڑنے کی مہلت دی جائے گی تو وہ تجارت کی راہ میں روک ٹوک کریں گے اور اس طرح قریش معاشی کاروبار کے تعطل سے بے موت مرجائیں گے.. 

ہجرت نبوی کا اثر مدینہ پر یہ ہوا کہ...
________

(1) انصار اول روز سے جب انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر عقبہ میں بیعت کی تھی , یہ سمجھتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دینا دنیا بھر سے عموماً اور قریش سے خصوصاً جنگ مول لینی ہے.. چنانچہ عین بیعت کے وقت بیعت کرنے والوں میں سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ تمہیں خبر ہے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو..؟ یہ عرب و عجم , جن و انس سے اعلان جنگ ہے.." تو سب نے کہا تھا کہ ہاں ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں.. چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو سب سے پہلا اثر یہ پڑا کہ مدینہ جو اب تک تمام بیرونی خطرات سے امن میں تھا , اب قریش اور قبائل عرب کی اسلام دشمنی کے باعث مخالفین اسلام کے قتل و غارت کا آماجگاہ بن گیا..

(2) انصار کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلمان جب پہلی دفعہ ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے تو قریش کی سفارت نجاشی کے پاس گئی تھی کہ یہ مہاجرین ہمارے قومی مجرم ہیں لہذا ہمارے حوالے کردئیے جائیں , اس لئے ان کو خطرہ تھا کہ مدینہ میں قریش ان قومی مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے دفعتاً فوجی دستہ لے کر نہ پہنچ جائیں.. چنانچہ انصار و مہاجرین ان خطرات کے تحت راتوں کو ہتھیار باندھ کر سوتے تھے.. خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حال تھا کہ راتوں کو جاگ کر بسر کرتے تھے.. 

(3) عبدﷲ ابن اُبی جو انصار کے قبیلہ اوس و خزرج کا متفقہ لیڈر اور سردار تھا اور جس کی تاج پوشی کی رسم متفقہ طور پر طے پاچکی تھی اور انصار نے اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کرنے کے لئے تاج تیار کرلیا تھا اور ہنوز اس نے منافقت کی راہ میں اسلام بھی قبول نہیں کیا تھا , ہجرت کی وجہ سے اس کی رسم تاج پوشی ناکام ہوگئی.. اس کا اس پر اور اس کے ساتھیوں پر خصوصی اثر کا پڑنا لازمی امر تھا.. وہ سمجھتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی حکومت چھین لی.. نتیجہ یہ ہوا کہ قدرتی طورپر مدینہ منورہ میں حاسدوں کی ایک منافق جماعت پیدا ہوگئی.. یہ نہایت خطرناک پارٹ ادا کرتی تھی اور ان سے اس امر کا بھی ہر وقت خطرہ رہتا تھا کہ کس وقت ان کی قریش سے سازباز ہوجائے.. چنانچہ چند مرتبہ ایسا ہوا کہ عبدﷲ بن اُبی کی وجہ سے مدینہ کے اندر خون کا بادل برستے برستے رہ گیا..

(4) حوالی مدینہ میں یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع , بنو نضیر , بنو قریظہ بستے تھے.. یہ لوگ عموماً دولت مند , زمین دار اور تجارت پیشہ تھے اس لئے مدینہ منورہ کے ملکی اور تجارتی معاملہ میں ان کو چودھراہٹ کی حیثیت حاصل تھی.. پھر انصار چونکہ بت پرست تھے اس لئے ان پر یہودیوں کا اچھا خاصہ مذہبی اور علمی اثر بھی تھا.. انصار ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی عافیت تسلیم کرتے تھے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد دفعتاً یہ فوقیت جاتی رہی اور یہود کی چودھراہٹ پر بھی آنچ آگئی اور انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کی وجہ سے ان کے اقتدار کو , ان کے جابرانہ کاروبار کو , ان کے سودی لین دین کو اور مذہبی وقار کو سخت دھچکہ لگا.. اس کی وجہ سے ان میں سخت ناراضگی پیدا ہوگئی اور اسلام کی خانہ بربادی کا عزم کرلیا اور صرف عزم نہیں کیا بلکہ عملاً وہ طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے..

ان حالات میں مدینہ منورہ داخلی اور خارجی حیثیت سے غیر محفوظ تھا.. داخلی نزاکت کا یہ حال تھا کہ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ جب مرنے لگے تو انھوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مرجاؤں تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر نہ کرنا.. ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی حادثہ گذرجائے.. 

خارجی حالت یہ تھی کہ قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردی تھیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں (فوجی دستے) مدینہ کے اطراف میں گشت لگاتی رہتی تھیں..

===========>جاری ھے.


سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 89  ہجرت کیوں کی گئی؟ ہجرت کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حسب ذیل امور پر روشنی ڈا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 88


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 88 

قریش کی پارلیمنٹ دارالندوہ میں: 


جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرام تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال ودولت کو لے کر اَوس وخَزرَج کے علاقے میں جا پہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا، بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد جب کفار قریش کو اس بیعت کی تفصیل معلوم ہوئی تو انہوں نے خیال کیا کہ مسلمانوں کو اب یثرب میں ٹھکانہ میسر آگیا ہے اور قبائل اوس و خزرج کی مدد بھی حاصل ہو گئی ہے، بہت ممکن ہے کہ عنقریب تمام مسلمان یثرب کو ہجرت کر جائیں، کفّاران قریش نے محسوس کیا کہ کچھ دن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہجرت کر جائیں گے۔

مشرکین کو معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر کمال قیادت و رہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوتِ تاثیر موجود ہے اور آپ کے صحابہ میں کیسی عزیمت واستقامت اور کیسا جذبہ فداکاری پایا جاتا ہے، پھر اوس وخزرج کے قبائل میں کس قدر قوت وقدرت اور جنگی صلاحیت ہے اور ان دونوں قبائل کے عقلاء میں صلح وصفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج وعداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں، انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے، اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے، درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی، اہلِ طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دار ومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پُر امن رہے۔

ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے؟ اب ان کے سامنے ایک ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہوچکا تھا جو ان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا، چونکہ مشرکین کو اس گھمبیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا، اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوتِ اسلام کے علمبردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے۔

مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعتِ عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد 26 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622 یوم جمعرات کو دن کے پہلے پہر مکے کی پارلیمنٹ "دار الندوہ" میں خفیہ اجتماع منعقد کیا، اس خطرناک اجتماع میں نمائندگان قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے: 

ابوجہل بن ہشام قبیلہ بنی مخزوم سے۔
جبیر بن مطعم، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر بنی نوفل بن عبد مناف سے۔
شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب بنی عبد شمس بن عبد مناف سے۔
نضر بن حارث بنی عبد الدار سے۔
ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام بنی اسد بن عبد العزیٰ سے۔
نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج بنی سہم سے۔
امیہ بن خلف بنی جمح سے۔

اجتماع مکمل ہوگیا تو تجاویز اور حل پیش کیے جانے شروع ہوئے اور دیر تک بحث جاری رہی، پہلے ابو الاسود نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلاوطن کردیں، پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا اور کہاں رہتا ہے، بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہوجائے گا اور ہمارے درمیان پہلے جیسی یگانگت ہوجائے گی۔

ابوالبختری نے کہا کہ اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردو اور باہر سے دروازہ بند کردو، پھر اسی انجام (موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلاً زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہوچکا ہے۔

یہ دونوں تجاویز پارلیمنٹ نے رد کردیں تو ایک تیسری مجرمانہ تجویز پیش کی گئی جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا، اسے پیش کرنے والا مکے کا سب سے بڑا مجرم ابوجہل تھا۔

اس نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں میری ایک رائے ہے، میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے۔"

لوگوں نے کہا: "ابوالحکم وہ کیا ہے؟"

ابوجہل نے کہا: "میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر ہر قبیلے سے ایک مضبوط، صاحبِ نسب اور بانکا جوان منتخب کرلیں، پھر ہر ایک کو تیز تلوار دیں، اس کے بعد سب کے سب کا رخ کریں اور اس طرح یکبارگی تلوار مار کر قتل کردیں جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو، یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے، لہٰذا دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے اور ہم دیت ادا کردیں گے۔"

پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کرلیا اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد کی تنفیذ علی الفور کرنی ہے، دن، تاریخ اور وقت قتل بھی خفیہ طور پر طے کر

لیا گیا، لیکن اس مقررہ تاریخ سے عین ایک روز قبل اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفارانِ قریش کی رازدارانہ کارروائی سے مطلع فرمایا۔ سورہ ٔ انفال کی آیت نمبر 30 میں اس جانب اشارہ فرمایا گیا ہے: 

"اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ وقت بھی یاد کرو) جب کہ کفار تمہارے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا جلا وطن کر دیں، وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔"


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 88  قریش کی پارلیمنٹ دارالندوہ میں:  جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرام تیار ہو ہو کر نکل گئے اور ب...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 87


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 87

حضرت عمرؓ بن الخطاب کی ہجرت:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے، صحابہ کرام عموماً کافروں کے شر سے بچنے کے لئے بغیر کسی اعلان و اظہار کے خاموشی کے ساتھ ہجرت کر رہے تھے، کیونکہ کفار انہیں ہجرت سے روکتے تھے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے اعلانیہ طور پر ہجرت کی۔

جب آپ رضی اللہ عنہ سفر مدینہ کے لئے تیار ہوئے تو انہوں نے اس شان سے ہجرت کی کہ پہلے مسلح ہوئے، پہلو میں تلوار لٹکائی، کندھے پر کمان دھری، تیر ہاتھ میں لئے، نیزہ سنبھالا اور خانہ کعبہ گئے، صحن حرم میں قریش کی مجلس جمی تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کی، پھر قریش جہاں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، وہاں آئے اور کہا:

"دشمن مغلوب ہوں، (میں ہجرت کرکے مدینہ جا رہا ہوں) جو چاہتا ہے اس کی ماں بین کرے، اس کی اولاد یتیم ہو اور اس کی رفیقۂ حیات بیوہ ہو، وہ مجھے اس وادی کے پار روک کر دیکھ لے۔"

مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا، چنانچہ وہ راہی مدینہ ہوئے، راستہ میں کچھ مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگئے، اس طرح بیس افراد کا یہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے صحابہ جو ہجرت کے لئے نکلتے تھے، وہ فتنہ میں مبتلا ہوجاتے تھے، کفار کو ان کی ہجرت کا علم ہوتا تو انہیں گرفتار کرلیتے تھے اور اس بات کی بھی کوشش کرتے تھے کہ مدینہ سے ان کو کسی حیلے سے مکہ لاکر قید کر دیں، چنانچہ حضرت عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔

حضرت عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تینوں نے ایک ساتھ ہجرت کا ارادہ کیا اور ان میں یہ بات قرار پائی کہ بنی غفار کے تالاب کے پاس "مقام تناسب" میں جمع ہوجائیں، ہم میں سے جو بھی صبح کو وہاں نہیں پہنچے گا تو سمجھ لیا جائے گا کہ وہ گرفتار ہوگیا، اس لئے بغیر انتظار کے پہنچ جانے والے روانہ ہوجائیں گے، صبح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عیاش رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کفار کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے، جنہیں ایک گھر میں بیڑی پہنا کر قید کردیا گیا۔

جب یہ دونوں حضرات مدینہ پہنچ کر قبا میں اتر چکے تو حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کے پاس ابوجہل اور اس کا بھائی حارث پہنچے، تینوں کی ماں ایک تھی، ان دونوں نے حضرت عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا: "تمہاری ماں نے نذر مانی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لے گی، سر میں کنگھی نہ کرے گی اور دھوپ چھوڑ کر سائے میں نہ آئے گی۔"

یہ سن کر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کو اپنی ماں پر ترس آ گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا: "عیاش! دیکھو اللہ کی قسم یہ لوگ تم کو محض تمہارے دین سے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں، لہٰذا ان سے ہوشیار رہو، اللہ کی قسم! اگر تمہاری ماں کو جوؤں نے اذیت پہنچائی تو کنگھی کرلے گی اور اسے مکہ کی ذرا کڑی دھوپ لگی تو وہ سائے میں چلی جائے گی۔"

مگر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ چونکہ رقیق القلب تھے، وہ نہ مانے اور مکہ جانے کے لئے تیار ہوگئے، انہوں نے اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے ان دونوں کے ہمراہ نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا جب یہی کرنے پر آمادہ ہو تو میری یہ اونٹنی لے لو، یہ بڑی عمدہ اور تیز رو ہے، اس کی پیٹھ نہ چھوڑنا اور لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت ہو تو نکل بھاگنا۔"

حضرت عیاش رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار ان دونوں کے ہمراہ نکل پڑے، راستے میں ایک جگہ ابوجہل نے کہا: "وﷲ! میں نے اپنے اونٹ پر بوجھ بہت لاد دیا ہے، کیا تھوڑی دیر کے لئے اپنی اونٹنی پر نہیں بٹھاؤ گے؟"

حضرت عیاش رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیوں نہیں" اور اس کے بعد اونٹنی بٹھادی، ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریاں بٹھائیں تاکہ ابوجہل حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر پلٹ آئے، لیکن جب تینوں زمین پر آگئے تو یہ دونوں اچانک حضرت عیاش رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں رسی سے جکڑ کر باندھ دیا اور اسی بندھی ہوئی حالت میں دن کے وقت مکہ لائے اور کہا: "اے اہلِ مکہ! اپنے بیوقوفوں کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسا ہم نے اپنے اس بیوقوف کے ساتھ کیا ہے۔"

حضرت ہشام رضی اللہ عنہ اور حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کفار کی قید میں پڑے رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز کہا: "کون ہے جو میرے لیے ہشام اور عیاش کو چھڑا لائے۔"

حضرت ولید بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: "یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں حاضر ہوں۔" حضرت ولید رضی اللہ عنہ چھپ کر مکہ پہنچے، ایک عورت کو دیکھا کہ کھانا لئے جارہی ہے، پوچھا "ﷲ کی بندی کہاں جارہی ہے؟" اس نے کہا: "میں دو قیدیوں کے پاس جارہی ہوں۔" یہ بھی اس کے پیچھے ہو لئے اور جس گھر میں وہ قید تھے اس کو پہچان لیا، اس گھر پر چھت نہ تھی، جب رات ہوئی تو دیوار پھاند کر ان کے پاس پہنچے اور بیڑیوں کو تلوار مار کر کاٹ دیا، پھر ان دونوں کو اپنے اونٹ پر سوار کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

عازمین ہجرت کا علم ہوجانے کی صورت میں ان کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے، اس کے یہ تین نمونے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود لوگ آگے پیچھے پے در پے نکلتے ہی رہے، چنانچہ بیعت عقبہ کبریٰ کے صرف دو ماہ چند دن بعد مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جلدی نہ کرو، شاید اللہ تمہیں ایک ساتھی عطا فرمائے۔" حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امید ہو گئی کہ وہ ساتھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہیں، چنانچہ انہوں نے دو اچھی نسل کی اونٹنیاں خریدیں اور انہیں سفر کے لئے تیار کیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوقت ہجرت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑا، محض اس لئے کہ اہل مکہ کی جو امانتیں ان کے پاس تھیں وہ لوٹا دیں اور پھر ہجرت کریں، امانتیں اُسی وقت لوٹانے سے راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا۔

یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب ارشاد رکے ہوئے تھے، البتہ کچھ ایسے مسلمان ضرور رہ گئے تھے، جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنا ساز وسامان تیار کرکے روانگی کے لیے حکم خداوندی کا انتظار کر رہے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رخت سفر بھی بندھا ہوا تھا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 87 حضرت عمرؓ بن الخطاب کی ہجرت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے، صحابہ کرام ع...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 86


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 86 

مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے سب سے پہلے مہاجر: 


جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہوگئی اور اسلام، کفر وجہالت کے لق ودق صحرا میں اپنے ایک وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور یہ سب سے اہم کامیابی تھی جو اسلام نے اپنی دعوت کے آغاز سے اب تک حاصل کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اپنے وطن کی طرف ہجرت کرجائیں۔

ہجرت کے معنی یہ تھے کہ سارے مفادات تج کر اور مال کی قربانی دے کر محض جان بچالی جائے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جان بھی خطرے کی زد میں ہے، ابتدائے راہ سے انتہائے راہ تک کہیں بھی ہلاک کی جاسکتی ہے، پھر سفر ایک مبہم مستقبل کی طرف ہے، معلوم نہیں آگے چل کر ابھی کون کون سے مصائب اور غم والم رونما ہوں گے۔

مسلمانوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہجرت کی ابتدا کردی، ادھر مشرکین نے بھی ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مضمر ہیں،  ہجرت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں: 

سب سے پہلے مہاجر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے ابن اسحاق کے بقول بیعت عقبہ کُبریٰ سے ایک سال پہلے ہجرت کی تھی، ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے، جب انہوں نے روانہ ہونا چاہا تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ یہ رہی آپ کی جان، اس کے متعلق تو آپ ہم پر غالب آگئے،  لیکن یہ بتائیے کہ یہ ہمارے گھر کی لڑکی؟ آخر کس بنا پر ہم آپ کو چھوڑ دیں کہ آپ اسے شہر شہر گھماتے پھریں؟ چنانچہ انہوں نے ان سے ان کی بیوی چھین لی۔

اس پر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو تاؤ آگیا اور انہوں نے کہا کہ جب تم لوگوں نے اس عورت کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو ہم اپنا بیٹا اس عورت کے پاس نہیں رہنے دے سکتے،  چنانچہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے اس کو اپنے پاس لے گئے، خلاصہ یہ کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے تنہا مدینہ کا سفر کیا۔

اس کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی روانگی اور اپنے بچے سے محرومی کے بعد روزانہ صبح صبح ابطح پہنچ جاتیں، جہاں یہ ماجرا پیش آیا تھا اور شام تک روتی رہتیں، اسی حالت میں ایک سال گزر گیا، بالآخر ان کے گھرانے کے کسی آدمی کو ترس آگیا اور اس نے کہا کہ اس بیچاری کو جانے کیوں نہیں دیتے؟ اسے خواہ مخواہ اس کے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے، اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان کے گھر والوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیٹے کو اس کے ددھیال والوں سے واپس لیا اور مدینہ چل پڑیں،  اللہ اکبر! کوئی پانچ سو کلومیٹر کی مسافت کا سفر اور ساتھ میں اللہ کی کوئی مخلوق نہیں، جب تَنَعِیم پہنچیں تو عثمان بن ابی طلحہ مل گیا، اسے حالات کی تفصیل معلوم ہوئی تو مشایعت کرتا ہوا مدینہ پہنچانے لے گیا اور جب قباء کی آبادی نظر آئی تو بولا: "تمہارا شوہر اسی بستی میں ہے، اسی میں چلی جاؤ، اللہ برکت دے۔" اس کے بعد وہ مکہ پلٹ آیا۔

ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی لیلیٰ بنت ابی حشمہ رضی اللہ عنہا کا نام مہاجرین کی فہرست میں اول ہے، اس کے بعد حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چھپ کر مدینہ روانہ ہوئے، اس کے بعد ہجرت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان سے کفار قریش نے کہا: "تم ہمارے پاس آئے تھے تو حقیرو فقیر تھے، لیکن یہاں آ کر تمہارا مال بہت زیادہ ہوگیا اور تم بہت آگے پہنچ گئے، اب تم چاہتے ہو کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں لے کر چل دو تو واللہ! ایسا نہیں ہوسکتا۔"

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنا مال چھوڑ دوں تو تم میری راہ چھوڑ دوگے؟" انہوں نے کہا: "ہاں!" حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا تو پھر ٹھیک ہے، چلو میرا مال تمہارے حوالے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "صہیب نے نفع اٹھایا، صہیب نے نفع اٹھایا۔"

حضرت عبداللہ بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ حبشہ میں تھے، مسلمانوں کی مدینہ کو ہجرت سن کر مکّہ آئے، والد نے پکڑ کر قید کردیا اور تکلیفیں دینی شروع کردیں، آخر تنگ آ کر باپ کو یقین دلایا کہ آبائی دین کی طرف لوٹتا ہوں، اس طرح قید سے نجات پائی، جنگ بدر میں جب مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہوئیں تو موقع پا کر مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوگئے، ان کے والد سہیل (رضی اللہ عنہ) فتح مکہ کے روز ایمان لائے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 86  مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے سب سے پہلے مہاجر:  جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہوگئی اور اسلام، کفر و...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 85


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 85 

بیعت کی تکمیل اور بارہ نقیب: 


جب تمام لوگ بیعت کر چکے اور بیعت کی دفعات بھی طے ہوچکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق بارہ نقیب منتخب کئے گئے، جن میں سے 9 قبیلہ خزرج سے اور 3 قبیلہ اوس سے تھے، ان 12 نقیبوں کو دعوت و تبلیغ کے لیے اپنے اپنے قبیلہ کا سربراہ مقرر کردیا گیا جو آپ کے ارشاد کے مطابق اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذ کے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں، ان کے نام یہ ہیں: 

خزرج کے نقباء: 
__

1.. اسعد بن زرارہ بن عدس رضی اللہ عنہ
2.. سعد بن ربیع بن عَمرو رضی اللہ عنہ
3.. عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ
4.. رافع بن مالک بن عجلان رضی اللہ عنہ
5.. براء بن معرور بن صخر رضی اللہ عنہ
6.. عبداللہ بن عَمرو بن حرام رضی اللہ عنہ
7.. عبادہ بن صامت بن قیس رضی اللہ عنہ
8.. سَعد بن عُبادہ بن دلیم رضی اللہ عنہ
9.. مُنذر بن عَمرو بن خنیس رضی اللہ عنہ

اوس کے نقباء: 
_

1.. اُسید بن حضیر بن سماک رضی اللہ عنہ
2.. سعد بن خیثمہ بن حارث رضی اللہ عنہ
3.. رِفَاعہ بن عبد المنذر بن زبیر رضی اللہ عنہ

جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں، جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔"

معاہدہ مکمل ہوچکا تھا اور اب لوگ بکھرنے ہی والے تھے کہ ایک شیطان کو اس کا پتہ لگ گیا، چونکہ یہ انکشاف بالکل آخری لمحات میں ہوا تھا اور اتنا موقع نہ تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچا دی جائے اور وہ اچانک اس اجتماع کے شرکاء پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں گھاٹی ہی میں جالیں، اس لیے شیطان نے جھٹ ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر نہایت بلند آواز سے پکار لگائی: "خیمے والو! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھو، اس وقت بد دین اس کے ساتھ ہیں اور تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے، او اللہ کے دشمن سن! اب میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہو رہا ہوں۔" اس کے بعد آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے ڈیروں پر چلے جائیں۔

اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس سے عبادہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! آپ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں۔" اس کے بعد لوگ واپس جاکر سو گئے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم والم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا، کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان ومال پر مرتب ہوسکتے تھے، اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا، چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے رؤساء اور اکابر کے ایک بھاری بھرکم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا اور یوں عرض پرداز ہوا: "خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں، حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔"

لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی، اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے، ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہی نہیں،  بالآخر یہ وفد عبداللہ بن اُبی ابن سلول کے پاس پہنچا، وہ بھی کہنے لگا: "یہ باطل ہے، ایسا نہیں ہوا ہے اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کا کام کر ڈالے، اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔"

باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور چپ سادھ لی، ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی، آخر رؤساء قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے، اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔

رؤساء مکہ تقریباً اس یقین کے ساتھ پلٹے تھے کہ یہ خبر غلط ہے، لیکن اس کی کرید میں وہ برابر لگے رہے، بالآخر انہیں یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ خبر صحیح ہے اور بیعت ہوچکی ہے، لیکن یہ پتہ اس وقت چلا جب حجاج اپنے اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے، اس لیے ان کے سواروں نے تیز رفتاری سے اہل یثرب کا پیچھا کیا، لیکن موقع نکل چکا تھا، البتہ انہوں نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیا اور انہیں جا گھیرا، لیکن منذر رضی اللہ عنہ زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئے اور نکل گئے، البتہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ پکڑ لیے گئے اور ان کا ہاتھ گردن کے پیچھے انہیں کے کجاوے کی رسی سے باندھ دیا گیا، پھر انہیں مارتے پیٹتے اور بال نوچتے ہوئے مکہ لے جایا گیا،  لیکن وہاں مطعم بن عدی اور حارث بن حرب بن امیہ نے آ کر چھڑا دیا، کیونکہ ان دونوں کے جو قافلے مدینے سے گزرتے تھے وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہی کی پناہ میں گزرتے تھے، ادھر انصار ان کی گرفتاری کے بعد باہم مشورہ کر رہے تھے کہ کیوں نہ دھاوا بول دیا جائے؟ مگر اتنے میں وہ دکھائی پڑگئے، اس کے بعد تمام لوگ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔

یہی عقبہ کی دوسری بیعت ہے، جسے بیعتِ عقبہ کُبریٰ کہا جاتا ہے، یہ بیعت ایک ایسی فضا میں زیر عمل آئی جس پر محبت و وفاداری، منتشر اہلِ ایمان کے درمیان تعاون وتناصر، باہمی اعتماد اور جاں سپاری وشجاعت کے جذبات چھا ئے ہوئے تھے، چنانچہ یثربی اہلِ ایمان کے دل اپنے کمزور مکی بھائیوں کی شفقت سے لبریز تھے، ان کے اندر ان بھائیوں کی حمایت کا جوش تھا اور ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف غم وغصہ تھا، ان کے سینے اپنے اس بھائی کی محبت سے سرشار تھے جسے دیکھے بغیر محض للہ فی اللہ اپنا بھائی قرار دے لیا تھا۔

اور یہ جذبات واحساسات محض کسی عارضی کشش کا نتیجہ نہ تھے جو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے، بلکہ اس کا منبع ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور ایمان بالکتاب تھا، یعنی وہ ایمان جو ظلم وعدوان کی کسی بڑی سے بڑی قوت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا، وہ ایمان کہ جب اس کی باد بہاری چلتی ہے تو عقیدہ وعمل میں عجائبات کا ظہور ہوتا ہے، اسی ایمان کی بدولت مسلمانوں نے صفحاتِ زمانہ پر ایسے ایسے کارنامے ثبت کیے اور ایسے ایسے آثار ونشانات چھوڑے کہ ان کی نظیر سے ماضی وحاضر خالی ہیں اور غالباً مستقبل بھی خالی ہی رہے گا۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 85  بیعت کی تکمیل اور بارہ نقیب:  جب تمام لوگ بیعت کر چکے اور بیعت کی دفعات بھی طے ہوچکیں تو رسول...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 84


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 84 

پہلی نماز جمعہ: 


پہلی بیعت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا، صرف چار گھرانے باقی رہ گئے تھے جو بعد میں ایمان لائے، حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے نماز باجماعت کا انتظام ہو گیا تھا جو حارّہ بنی بیاضہ میں ادا کی جاتی تھی، جب مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی تو یہودیوں کے سبت (ہفتہ) اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح اجتماعی عبادت کے لئے جمعہ کا دن اختیار کیا جو عہد جاہلیت میں یوم عروبہ کہلاتا تھا، کعب بن لوئی نے اس کا نام بدل کر جمعہ رکھا۔

سب سے پہلی نماز جمعہ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے بنی بیاضہ کے علاقہ میں پڑھائی،  اس وقت تک نماز جمعہ کا حکم نہیں آیا تھا، روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہونے والے انصار کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ تمام مسلمانوں پر جمعہ فرض کر دیا گیا، مشہور انصاری صحابی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بڑھاپے میں نابینا ہو گئے تھے، ان کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ان کا ہاتھ پکڑ کر مسجد لے جاتے تھے، جمعہ کی اذان سنتے ہی وہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے مغفرت کرتے، بیٹے نے وجہ دریافت کی تو کہا کہ ہمیں مدینہ میں سب سے پہلے جمعہ کی نماز انہوں نے ہی پڑھائی تھی۔

نبوت کے تیرہویں سال موسم حج جون 622ء میں یثرب سے پانچ سو زائرین آئے، جن میں 73 مرد اور 2 عورتیں مسلمان تھیں، یہ اپنی قوم کے مشرک حاجیوں میں شامل ہوکر آئے تھے، مقصد یہ تھا کہ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا وہ اس دولت سے مشرف ہوں اور جو اسلام قبول کر چکے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرکے اسلام سے وفاداری اور آپ پر جاں نثاری کا پختہ عہد کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکّہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیام کی دعوت دیں، اس قافلہ نے منیٰ میں قیام کیا اور خفیہ طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ارادہ سے مطلع کیا۔

چنانچہ رات میں اُسی قدیم گھاٹی عقبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کا اہتمام کیا گیا، دو عورتوں میں ایک بنی مازن بن نجار کی حضرت نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا تھیں جو اپنی کنیت "اُمِّ عمارہ" کے نام سے مشہور تھیں اور دوسری خاتون بنی سلمہ کی حضرت اسماء بنت عمرو رضی اللہ عنہا "اُمِّ منیع" تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) بھی آئے تھے، یہ اگرچہ ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان چھڑکتے تھے، انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا: 

"اے لوگو! تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ آنے کی دعوت تو دی، مگر سُن لو کہ وہ اپنے خاندان میں سب سے زیادہ معزز ہیں، جو لوگ ان پر ایمان لائے وہ بھی ان کے لئے سینہ سپر رہتے ہیں اور جو ایمان نہیں لائے وہ بھی خاندانی عزت و شرف کی وجہ سے ان کی حمایت کرتے ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ رہنا منظور کیا ہے، لہٰذا اگر تم اپنے اندر ان کی حفاظت و مدافعت کی طاقت پاتے ہو اور ان کی خاطر سارے عرب کی دشمنی مول لینے کے لئے تیار ہو تو اچھی طرح آپس میں مشورہ کرکے بات طے کرلو اور وہی بات کہو جس پر سب کا اتفاق ہو جائے کیونکہ سچی بات ہی اچھی ہوتی ہے۔"

حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کی یہ تقریر سن کر رئیس خزرج برأ بن معرور رضی اللہ عنہ نے کہا:  "اے عباس! تم نے جو کچھ کہا ہم نے وہ سنا، ہم نے وہی کہا جو ہمارے دل میں ہے، ہم نے راست گوئی، ایفائے عہد اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی جانیں قربان کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔"

پھر دوسروں نے کہا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم ہر طرح حاضر ہیں، آپ جو چاہیں ہم سے عہد لیں۔"

یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں اور تعلیمات اسلام پیش کیں، پھر فرمایا: "میں چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت و حمایت کرتے ہو، اسی طرح میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت و نصرت کا وعدہ کرو۔"

برأ بن معرور رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جس طرح اپنے بیوی بچوں کی حمایت و حفاظت کرتے ہیں آپ کی بھی کریں گے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! دستِ مبارک بڑھائیے اور ہم سے بیعت لیجئے، ہم میدانِ جنگ کے شہسوار ہیں۔"

مگر ابو الہشیم بن التیہان رضی اللہ عنہ نے ان کی بات کاٹ دی اور کہنے لگے، "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارے یہودیوں سے کچھ تعلقات ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کے بعد یہ تعلقات ختم ہو جائیں گے، ایسا نہ ہو کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو قوت و طاقت عطا فرمائے تو (آپ کی قوم آپ کو بلا لے اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس لوٹ جائیں اور ہم کو چھوڑ دیں۔"

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکراکر فرمایا: "نہیں! تمہارا خون میرا خون ہے، تم میرے ہو اور میں تمہارا، تمہاری اور میری صلح و جنگ ایک ہے۔"

اس گفتگو کے بعد حاضرین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائے،  بیعت کے دوران عباس بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اے گروہ خزرج! اچھی طرح سمجھ لو کہ تم کس چیز پر بیعت کر رہے ہو، تم عرب و عجم سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔"

سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا: "ہاں! ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں، ہماری جان اور مال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حاضر ہے۔"

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ سے کس بات پر بیعت کریں؟" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 

1.. خوشی اور ناخوشی ہر حال میں سمع و طاعت کرنا۔
2.. تنگ دستی و خوشحالی میں ﷲ کی راہ میں خرچ کرنا۔
3.. نیک کام کرنے کی تلقین اور برے کام کے روکنے کی تاکید کرنا۔
4.. ﷲ کے دین میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنا۔
5.. جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں تو آپ کی ایسی حفاظت کرنا، جیسی اپنے جان و مال اور اہل و عیال کی کرتے ہیں اور صلہ جنت ہے۔

ابن اسحاق کی روایت ہے کہ بنو نجار کہتے ہیں کہ ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی اور اس کے بعد بیعت عامہ ہوئی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک کرکے اٹھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی، دو عورتیں جو اس وقت وہاں حاضر تھیں، ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی اجنبی عورت سے ہاتھ نہیں ملایا، ابن اسحاق کا یہ بھی بیان ہے کہ عبدالاشہل کہتے ہیں کہ ابوالہشیم بن التیہان رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بیعت کی۔

الغرض اسی جوش و خروش کی فضا میں 75 فدائیان مدینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی، یہ بیعت عقبہ ثانیہ یا بیعت عقبہ کبیرہ کہلاتی ہے، جو ذی الحجہ 13 نبوت مطابق جون یا جولائی 622ء میں ہوئی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 84  پہلی نماز جمعہ:  پہلی بیعت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا، صرف چار گھرانے باقی...