سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 76
حضرت ابوذر غفاری ؓ کا قبول اسلام:
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ یثرب کے اطراف میں سکونت پزیر تھے، جب سوید بن صامت رضی اللہ عنہ اور ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ذریعے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو غالباً یہ خبر ابوذر کے کان سے بھی ٹکرائی اور یہی ان کے اسلام لانے کا سبب بنی، ان کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے مروی ہے، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں قبیلہ غفار کا ایک آدمی تھا، مجھے معلوم ہوا کہ مکے میں ایک آدمی نمودار ہوا ہے، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے، میں نے اپنے بھائی سے کہا: "تم اس آدمی کے پاس جاؤ، اس سے بات کرو اور میرے پاس اس کی خبر لاؤ۔" وہ گیا، ملاقات کی اور واپس آیا۔ میں نے پوچھا: "کیا خبر لائے ہو؟" بولا: "اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے، جو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔"
میں نے کہا: "تم نے تشفی بخش خبر نہیں دی۔" آخر میں نے خود توشہ دان اور ڈنڈا اٹھایا اور مکہ کے لیے چل پڑا، (وہاں پہنچ تو گیا ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتا نہ تھا اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کسی سے پوچھوں، چنانچہ میں زمزم کا پانی پیتا اور مسجد حرام میں پڑا رہتا۔
آخر میرے پاس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، کہنے لگے: "آدمی اجنبی معلوم ہوتا ہے۔" میں نے کہا: "جی ہاں!" انہوں نے کہا: "اچھا تو گھر چلو" میں ان کے ساتھ چل پڑا، نہ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے، نہ میں ان سے کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ انہیں کچھ بتا ہی رہا تھا۔
صبح ہوئی تو میں اس ارادے سے پھر مسجد حرام گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق دریافت کروں، لیکن کوئی نہ تھا جو مجھے آپ کے متعلق کچھ بتاتا، آخر میرے پاس پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ گزرے، (دیکھ کر) بولے: "اس آدمی کو ابھی اپنا ٹھکانہ معلوم نہ ہوسکا؟" میں نے کہا: "نہیں" انہوں نے کہا: "اچھا تو میرے ساتھ چلو۔"
اس کے بعد انہوں نے کہا: "اچھا تمہارا معاملہ کیا ہے اور تم کیوں اس شہر میں آئے ہو؟"
میں نے کہا: "آپ راز داری سے کام لیں تو بتاؤں" انہوں نے کہا: "ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔"
میں نے کہا: "مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کا نبی بتاتا ہے، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ وہ بات کرکے آئے، مگر اس نے پلٹ کر کوئی تشفی بخش بات نہ بتلائی، اس لیے میں نے سوچا کہ خود ہی ملاقات کر لوں۔"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: "بھئی تم صحیح جگہ پر آئے ہو، میں بھی ان ہی کی طرف جا رہا ہوں، اس لئے تم بھی میرے ساتھ چلے آؤ، اگر راستہ میں کوئی ایسا شخص ملے جس سے تمھیں کچھ خطرہ ہے تو میں اپنا جوتا ٹھیک کرنے کے بہانے دیوار کی طرف چلا جاؤں گا، لیکن تم راستہ پر چلتے رہنا۔"
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ چلنے لگے تو میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا، یہاں تک کہ وہ اندر داخل ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا داخل ہوا اور عرض پرداز ہوا کہ آپ مجھ پر اسلام پیش کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہوگیا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے ابوذر! اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ، جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا"۔
میں نے کہا: "اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل اس کا اعلان کروں گا۔"
اس کے بعد میں مسجد الحرام آیا، قریش موجود تھے، میں نے کہا: "قریش کے لوگو! أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔''
لوگوں نے کہا: "اٹھو، اس بے دین کی خبر لو۔" لوگ اٹھ پڑے، مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجاؤں، لیکن حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے آ بچایا، انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا، پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے: "تمہاری بربادی ہو، تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہو؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزرگاہ غفار ہی سے ہوکر جاتی ہے۔" اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے۔
دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جو کچھ کل کہا تھا آج پھر کہا، اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہوچکا تھا اور آج بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی نے مجھے آ بچایا۔"
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں