سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 79


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 79 

اسراء اور معراج: 


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت وتبلیغ ابھی کامیابی اور ظلم وستم کے اس درمیانی مرحلے سے گزر رہی تھی اور افق کے دور دراز پہنائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی پڑنا شروع ہوچکی تھی کہ اِسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا، یہ معراج کب واقع ہوئی؟ اس بارے میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں، البتہ سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے۔

واقعہ کی تفصیل جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمارہے تھے کہ دو فرشتے جبریل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا اور اپنے ساتھ حرم کعبہ میں صفا و مروہ کے درمیان لائے جہاں بُرّاق کھڑا تھا، وہ گدھے سے بڑا لیکن خچر سے کچھ چھوٹا سفید رنگ کا بہشتی جانور تھا، ران پر دو پر تھے اور زین بندھی تھی، اس جنتی بُرّاق کا نام جارود تھا، جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کروایا اور روانہ ہوئے، دائیں بائیں فرشتوں کی جماعتیں تھیں، راستہ میں کھجور کے درختوں کے جُھنڈ نظر آئے، جبرئیل علیہ السلام نے کہا: "یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دارالحجرت ہے۔" یہاں اتر کر آپ نے دو رکعت نفل نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے طور سینا پر براق کو روکا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، آپ کی تیسری منزل بیت اللحم تھی جس کے بارے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے، وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی، وہاں سے بیت المقدس آئے جہاں مسجد اقصیٰ تھی، وہاں آپ براق سے اترے،  استقبال کے لئے فرشتوں کی کثیر تعداد تھی۔

مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء آپ کے منتظر تھے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی، حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی مقتدیوں میں تھے، یہ سفر کی پہلی منزل تھی اس کو "اسراء" بھی کہا جاتا ہے، اس کے بعد سفر کی دوسری منزل شروع ہوئی جو اصل معراج ہے۔

وہاں سے جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صخرہ پر لائے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ہیں، وہاں ایک سیڑھی نمودار ہوئی جس کے ذریعے اسی رات آپ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دروازہ کھولا گیا، آپ نے وہاں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے آپ کو مرحبا کہا، سلام کا جواب دیا اور آپ کی نبوت کا اقرار کیا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا، آپ نے وہاں حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا، دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا، دونوں نے سلام کا جواب دیا، مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔

پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔

پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مرحبا کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔

پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا مبارک باد دی اور اقرار نبوت کیا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مرحبا کہا اور اقرار نبوت کیا، البتہ جب آپ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے، ان سے کہا گیا: "آپ کیوں رو رہے ہیں؟" انہوں نے کہا: "میں اس لیے رو رہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا، اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔"

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، آپ نے انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت المعمور دکھلایا گیا، جو فرشتوں کا کعبہ ہے اور زمین پر کعبہ کےعین اوپر واقع ہے، وہاں ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے طواف کر رہے تھے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، سدرہ ایک بیری کا درخت ہے، اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل مٹکوں کی طرح تھے، فرشتے جگنوؤں کی طرح ان پتوں پر تھے، اس پر سونے کے پتنگے، روشنی اور مختلف رنگ چھائے ہوئے تھے، سدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حدِّ فاصل ہے، اس کے آگے عالمِ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، یہیں پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نجم میں ہے، اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں داخل ہوئے، حضرت جبرائیل علیہ السلام سدرہ سے کچھ آگے رُک گئے اور عرض کیا کہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاک ہو جاؤں، اب آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے۔

==================>
 جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں