سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 78


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 78 

یثرب کی چھ سعادت مند روحیں: 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ قبائل کا دورہ فرماتے اور اسلام کی تبلیغ کرتے اور ہر سال منیٰ، عکاظ، مجنٰہ وغیرہ کے میلوں میں قبائل عرب کو دعوت دیتے، حج کا زمانہ آیا تو قافلوں کے قافلے منیٰ کی وادی میں پڑاؤ ڈالنے لگے، اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا اس کے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ آپ رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے۔

اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے اور مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر عقبہ کی گھاٹی میں پہنچے، بنو ذُہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی، انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا، آپ نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جا پہنچے، یہ یثرب کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ اہل یثرب کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے حلیف یہود مدینہ سے سنا کرتے تھے کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا جانے والا ہے اور اب جلد ہی وہ نمودار ہوگا، ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں "عادِ ارَم" کی طرح قتل کر ڈالیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے دریافت کیا: "آپ کون لوگ ہیں؟" انھوں نے کہا کہ یثرب سے آئے ہیں اور بنو خزرج سے تعلق ہے، پھر آپ نے پوچھا: "کیا یہودیوں کے حلیف ہو؟" عرض کیا کہ ہاں!  آپ نے فرمایا: "کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں؟"

وہ لوگ بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی، انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کا یثرب کے یہودی تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ دیکھو! یہود ہم سے اس اولیت میں بازی نہ لے جائیں،  یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں: 

1.. حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ: 
خزرج کی شاخ بنی مالک بن نجّار سے تعلق تھا، صحابہ میں سب سے پہلے ان ہی نے 1 ھ میں وفات پائی۔

2.. حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ رضی اللہ عنہ: 
بنی نجّار سے تعلق تھا اور "ابن عفراء" کہلاتے تھے، بدر میں وفات پائی۔

3.. حضرت رافع بن مالک بن عجلان رضی اللہ عنہ: 
بنی زریق کے معزز شخص تھے، اس وقت تک جس قدر قرآن اتر چکا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو عنایت فرمایا، اُحد میں شہید ہوئے۔

4.. حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ رضی اللہ عنہ: 
بنی سلمہ سے تعلق تھا۔

5.. حضرت عقبہ بن عامر بن نابی رضی اللہ عنہ: 
بنی خزام بن کعب سے تھے۔

6.. حضرت جابر بن عبداللہ رُباب رضی اللہ عنہ: 
بنی عبید بن عدی سے تھے۔

ان افراد کا شمار دانشوران یثرب میں ہوتا تھا، انہیں اندازہ تھا کہ حال ہی میں اوس اور خزرج میں جو جنگ ہوئی تھی، اس نے بڑی حد تک معاشرے کو پیس کر رکھ دیا تھا، اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مزید ایسی کوئی جنگ ہو، اس لئے انہوں نے یہ توقع قائم کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت جنگ کے خاتمہ کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت اور دشمنی نہیں پائی جاتی، ہمیں توقع ہے کہ آپ کی دعوت کے ذریعہ ﷲ تعالیٰ ان میں یکجہتی پیدا کرے گا اور یہ کہ موجودہ حالات آپ کی تشریف آوری کے لئے سازگار نہیں، ہم یثرب جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آپ کی دعوت کی طرف بلا کر ان کے سامنے دین اسلام پیش کریں گے اور آئندہ سال پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔

اس کے بعد وہ لوگ یثرب واپس ہوئے اور ان کے ذریعہ گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگا۔

==================>
 جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں