سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 92
نبیﷺ کی ہجرت اور مددگار لوگ:
جب جستجو کی آگ بجھ گئی، تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا، عبداللہ بن اریقط لَیْثی سے جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا، یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا، لیکن قابل اطمینان تھا، اس لیے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں اور طے ہوا تھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا، چنانچہ جب دوشنبہ کی رات جو ربیع الاول 1 ھ کی چاند رات تھی، (مطابق 16 ستمبر 622 ء) عبداللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا۔
ادھر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا (بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی زاد سفر لے کر آئیں، مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں، جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے، انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دو حصوں میں چاک کرکے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا، اسی وجہ سے ان کا لقب "ذاتُ النّطاقین" پڑ گیا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۵ ، ابن ہشام ۱/۴۸۶)
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کوچ فرمایا، حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے، دلیل راہ عبداللہ بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا، غار سے روانہ ہوکر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دور تک لے گیا، پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا، پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے، شمال کی طرف مڑ گیا، یہ راستہ ساحل بحرِ احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذو نادر ہی کوئی چلتا تھا۔
اس سفر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف رہا کرتے تھے، یعنی سواری پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے، چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کم توجہ جاتی تھی، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھتا کہ آپ کے آگے کون آدمی ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے، فرماتے: "یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے۔" اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں، حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے میں جن مقامات سے گزرے، ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب راہنما آپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیریں مکہ سے لے چلا، پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیریں عسفان سے راستہ کاٹا، پھر زیریں امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قدید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کاٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہوا خرار سے گزرا، پھر ثنیۃ المرہ سے، پھر لقف سے، پھر بیابان لقف سے گزرا، پھر مجاح کے بیابان میں پہنچا اور وہاں سے پھر مجاح کے موڑ سے گزرا، پھر ذی الغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا، پھر ذی کشر کی وادی میں داخل ہوا، پھر جداجد کا رخ کیا، پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابان تعہن کے وادئ ذوسلم سے گزرا، وہاں سے عبابید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا، پھر عرج میں اترا، پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیۃ العائر میں چلا، یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قباء پہنچ گیا-
==================> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں