سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 80
سفر معراج کے اہم واقعات:
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے بعد اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا، اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ کو کس چیز کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "پچاس نمازوں کا۔"
انہوں نے کہا: "آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا، گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں، انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں، اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور لے گئے، اللہ عزوجل نے دس نمازیں کم کردیں اور آپ نیچے لائے گئے، جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی، انہوں نے پھر کہا: "آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔" اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت برابر جاری رہی، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں، اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو واپسی اور طلب تخفیف کا مشورہ دیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے، میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔"
امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں؟ پھر امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دو قول منقول ہیں، ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ان کی اپنی شکل میں دیکھا، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اپنی شکل میں دو مرتبہ دیکھا تھا، ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ یہاں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ واللہ اعلم۔
بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سفر کے دوران کئی چیزیں دکھلائی گئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دودھ اور شراب پیش کی گئی تو آپ نے دودھ اختیار فرمایا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ کو فطرت کی راہ بتائی گئی یا آپ نے فطرت پالی اور یاد رکھئے کہ اگر آپ نے شراب لی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں چار نہریں دیکھیں، دو ظاہری اور دو باطنی، ظاہری نہریں نیل و فرات تھیں اور باطنی نہریں جنت کی دو نہریں ہیں، (نیل و فرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت نیل و فرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی۔ واللہ اعلم)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "مالک" داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی، آپ نے جنت وجہنم بھی دیکھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں، ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے، جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود خوروں کو بھی دیکھا، ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کرنے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زنا کاروں کو بھی دیکھا، ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا، یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہروں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں، (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں، لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا، آپ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا، اس وقت قافلہ سورہا تھا، پھر آپ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں