سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 87


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 87

حضرت عمرؓ بن الخطاب کی ہجرت:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے، صحابہ کرام عموماً کافروں کے شر سے بچنے کے لئے بغیر کسی اعلان و اظہار کے خاموشی کے ساتھ ہجرت کر رہے تھے، کیونکہ کفار انہیں ہجرت سے روکتے تھے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے اعلانیہ طور پر ہجرت کی۔

جب آپ رضی اللہ عنہ سفر مدینہ کے لئے تیار ہوئے تو انہوں نے اس شان سے ہجرت کی کہ پہلے مسلح ہوئے، پہلو میں تلوار لٹکائی، کندھے پر کمان دھری، تیر ہاتھ میں لئے، نیزہ سنبھالا اور خانہ کعبہ گئے، صحن حرم میں قریش کی مجلس جمی تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کی، پھر قریش جہاں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، وہاں آئے اور کہا:

"دشمن مغلوب ہوں، (میں ہجرت کرکے مدینہ جا رہا ہوں) جو چاہتا ہے اس کی ماں بین کرے، اس کی اولاد یتیم ہو اور اس کی رفیقۂ حیات بیوہ ہو، وہ مجھے اس وادی کے پار روک کر دیکھ لے۔"

مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا، چنانچہ وہ راہی مدینہ ہوئے، راستہ میں کچھ مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگئے، اس طرح بیس افراد کا یہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے صحابہ جو ہجرت کے لئے نکلتے تھے، وہ فتنہ میں مبتلا ہوجاتے تھے، کفار کو ان کی ہجرت کا علم ہوتا تو انہیں گرفتار کرلیتے تھے اور اس بات کی بھی کوشش کرتے تھے کہ مدینہ سے ان کو کسی حیلے سے مکہ لاکر قید کر دیں، چنانچہ حضرت عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔

حضرت عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تینوں نے ایک ساتھ ہجرت کا ارادہ کیا اور ان میں یہ بات قرار پائی کہ بنی غفار کے تالاب کے پاس "مقام تناسب" میں جمع ہوجائیں، ہم میں سے جو بھی صبح کو وہاں نہیں پہنچے گا تو سمجھ لیا جائے گا کہ وہ گرفتار ہوگیا، اس لئے بغیر انتظار کے پہنچ جانے والے روانہ ہوجائیں گے، صبح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عیاش رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کفار کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے، جنہیں ایک گھر میں بیڑی پہنا کر قید کردیا گیا۔

جب یہ دونوں حضرات مدینہ پہنچ کر قبا میں اتر چکے تو حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کے پاس ابوجہل اور اس کا بھائی حارث پہنچے، تینوں کی ماں ایک تھی، ان دونوں نے حضرت عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا: "تمہاری ماں نے نذر مانی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لے گی، سر میں کنگھی نہ کرے گی اور دھوپ چھوڑ کر سائے میں نہ آئے گی۔"

یہ سن کر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کو اپنی ماں پر ترس آ گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا: "عیاش! دیکھو اللہ کی قسم یہ لوگ تم کو محض تمہارے دین سے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں، لہٰذا ان سے ہوشیار رہو، اللہ کی قسم! اگر تمہاری ماں کو جوؤں نے اذیت پہنچائی تو کنگھی کرلے گی اور اسے مکہ کی ذرا کڑی دھوپ لگی تو وہ سائے میں چلی جائے گی۔"

مگر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ چونکہ رقیق القلب تھے، وہ نہ مانے اور مکہ جانے کے لئے تیار ہوگئے، انہوں نے اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے ان دونوں کے ہمراہ نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا جب یہی کرنے پر آمادہ ہو تو میری یہ اونٹنی لے لو، یہ بڑی عمدہ اور تیز رو ہے، اس کی پیٹھ نہ چھوڑنا اور لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت ہو تو نکل بھاگنا۔"

حضرت عیاش رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار ان دونوں کے ہمراہ نکل پڑے، راستے میں ایک جگہ ابوجہل نے کہا: "وﷲ! میں نے اپنے اونٹ پر بوجھ بہت لاد دیا ہے، کیا تھوڑی دیر کے لئے اپنی اونٹنی پر نہیں بٹھاؤ گے؟"

حضرت عیاش رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیوں نہیں" اور اس کے بعد اونٹنی بٹھادی، ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریاں بٹھائیں تاکہ ابوجہل حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر پلٹ آئے، لیکن جب تینوں زمین پر آگئے تو یہ دونوں اچانک حضرت عیاش رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں رسی سے جکڑ کر باندھ دیا اور اسی بندھی ہوئی حالت میں دن کے وقت مکہ لائے اور کہا: "اے اہلِ مکہ! اپنے بیوقوفوں کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسا ہم نے اپنے اس بیوقوف کے ساتھ کیا ہے۔"

حضرت ہشام رضی اللہ عنہ اور حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کفار کی قید میں پڑے رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز کہا: "کون ہے جو میرے لیے ہشام اور عیاش کو چھڑا لائے۔"

حضرت ولید بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: "یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں حاضر ہوں۔" حضرت ولید رضی اللہ عنہ چھپ کر مکہ پہنچے، ایک عورت کو دیکھا کہ کھانا لئے جارہی ہے، پوچھا "ﷲ کی بندی کہاں جارہی ہے؟" اس نے کہا: "میں دو قیدیوں کے پاس جارہی ہوں۔" یہ بھی اس کے پیچھے ہو لئے اور جس گھر میں وہ قید تھے اس کو پہچان لیا، اس گھر پر چھت نہ تھی، جب رات ہوئی تو دیوار پھاند کر ان کے پاس پہنچے اور بیڑیوں کو تلوار مار کر کاٹ دیا، پھر ان دونوں کو اپنے اونٹ پر سوار کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

عازمین ہجرت کا علم ہوجانے کی صورت میں ان کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے، اس کے یہ تین نمونے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود لوگ آگے پیچھے پے در پے نکلتے ہی رہے، چنانچہ بیعت عقبہ کبریٰ کے صرف دو ماہ چند دن بعد مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جلدی نہ کرو، شاید اللہ تمہیں ایک ساتھی عطا فرمائے۔" حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امید ہو گئی کہ وہ ساتھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہیں، چنانچہ انہوں نے دو اچھی نسل کی اونٹنیاں خریدیں اور انہیں سفر کے لئے تیار کیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوقت ہجرت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑا، محض اس لئے کہ اہل مکہ کی جو امانتیں ان کے پاس تھیں وہ لوٹا دیں اور پھر ہجرت کریں، امانتیں اُسی وقت لوٹانے سے راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا۔

یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب ارشاد رکے ہوئے تھے، البتہ کچھ ایسے مسلمان ضرور رہ گئے تھے، جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنا ساز وسامان تیار کرکے روانگی کے لیے حکم خداوندی کا انتظار کر رہے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رخت سفر بھی بندھا ہوا تھا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں