سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 71
وادی نخلہ میں جنات کا قبول اسلام
طائف سے واپس ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند روز مقام نخلہ میں قیام فرمایا جو مکہ سے ایک رات کی مسافت پر واقع ہے، دوران قیام ایک رات نماز تہجد میں آپ نے پہلی رکعت میں سورۂ رحمٰن اور دوسری میں سورۂ جن تلاوت فرمائی، اتفاق سے ملک شام کے مقام نصیبین (بروایت دیگر نینویٰ) کے سات جنوں کا ادھر سے گزر ہوا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرأت سن کر ٹھہر گئے اور غور سے سننے لگے۔ روایت ہے کہ جِن نماز کے بعد ظاہر ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایمان کی دعوت دی اور انہوں نے قبول کرلی، آپ نے انہیں اسلام کی دعوت کو عام کرنے کی تلقین کی۔
روایت ہے کہ جِنّات کی قوم یہودی مسلک پر تھی، لیکن اِن جِنوں کے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا، جنات کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کا ذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک سورۃ الاحقاف میں اور دوسرے سورہ ٔجن میں، سورۃ الاحقاف کی آیات میں فرمایا گیا:
"اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیرا کہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ (تلاوت ) قرآن کی جگہ پہنچے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ چپ ہوجاؤ، پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تو وہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے، انہوں نے کہا: "اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے، اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے، حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اے ہماری قوم! ﷲ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، ﷲ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔" (الاحقاف :۲۹۔ ۳۱)
سورۂ جن کی آیات میں فرمایا گیا:
"(اے پیغمبر) لوگوں سے کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں میں سے ایک جماعت نے اس کتاب کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے، جو بھلائی کا راستہ بتاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔" (سورہ جن :۱ - ۲)
جنوں کی آمد اور قبولِ اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی، جو اس نے اپنے غیبِ مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بیچ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی، چنانچہ ارشاد ہے:
''جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہ کرے، وہ زمین میں (اللہ کو ) بے بس نہیں کرسکتا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی کارساز ہے بھی نہیں اور ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔" (۴۶: ۳۲)
اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم والم اور حزن و مایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چھائے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عزم مصمم فرما لیا کہ اب مکہ پلٹنا ہے اور نئے سرے سے دعوتِ اسلام اور تبلیغِ رسالت کے کام میں چستی اور گرم جوشی کے ساتھ لگ جانا ہے، یہی موقع تھا جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کی کہ آپ مکہ کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں یعنی قریش نے آپ کو نکال دیا ہے۔؟
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے زید! تم جو حالت دیکھ رہے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا، اللہ یقینا اپنے دین کی مدد کرے گا اور اپنے نبی کو غالب فرمائے گا۔"
نخلہ سے روانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ حرا پر تشریف لائے اور یہاں مقیم ہو کر آپ نے بعض سردارانِ قریش کے نام پیغام بھیجا، مگر کوئی شخص آپ کو اپنی ضمانت اور پناہ میں لینے کے لئے تیار نہ ہوا، مطعم بن عدی کے پاس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچا تو وہ بھی اگرچہ مشرک اور کافر تھا، مگر عربی شرافت اور قومی حمیت کے جذبہ سے متاثر ہو کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سیدھا کوہ حرا پر پہنچ کر اور آپ کو اپنے ہمراہ لے کر مکہ میں آیا تھا، مطعم کے بیٹے ننگی تلواریں لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اس کے بعد مطعم اور اس کے بیٹوں نے ننگی تلواروں کے سائے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھر تک پہنچادیا۔
قریش نے مطعم سے پوچھا کہ تم کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا واسطہ ہے؟ مطعم نے جواب دیا کہ مجھ کو واسطہ تو کچھ نہیں، لیکن میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حمایتی ہوں، جب تک وہ میری حمایت میں ہیں، کوئی نظر بھر کر ان کو نہیں دیکھ سکتا، مطعم کی یہ ہمت اور حمایت دیکھ کر قریش کچھ خاموش سے ہو کر رہ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطعم بن عدی کے اس حسنِ سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا، چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہو کر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا:
''اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا، پھر مجھ سے ان بدبودار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔'' (صحیح بخاری , ۲/۵۷۳)
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں