سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 77


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 77 

شاعر طفیل بن عمرو دوسی ؓ کا قبول اسلام: 

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ یمن کے قبیلہ "دوس" کے سردار اور نہایت اعلیٰ سوجھ بوجھ کے مالک اور شاعر تھے، ان کے قبیلے کو نواح یمن میں امارت حاصل تھی، وہ نبوت کے گیارہویں سال مکہ تشریف لائے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اہل مکہ نے ان کا استقبال کیا اور نہایت عزت واحترام سے پیش آئے، پھر ان سے عرض پرداز ہوئے: "اے طفیل! آپ ہمارے شہر تشریف لائے ہیں اور یہ شخص جو ہمارے درمیان ہے، اس نے ہمیں سخت پیچیدگی میں پھنسا رکھا ہے، ہماری جمعیت بکھیر دی ہے اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے، اس کی بات جادو کا سا اثر رکھتی ہے کہ آدمی اور اس کے باپ کے درمیان، آدمی اور اس کے بھائی کے درمیان اور آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتی ہے،  ہمیں ڈر لگتا ہے کہ جس افتاد سے ہم دوچار ہیں کہیں وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر بھی نہ آن پڑے،  لہٰذا آپ اس سے ہرگز گفتگو نہ کریں اور اس کی کوئی چیز نہ سنیں۔"

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ مجھے برابر اسی طرح کی باتیں سمجھاتے رہے،  یہاں تک کہ میں نے تہیہ کرلیا کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی چیز سنوں گا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت کروں گا، حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی کہ مبادا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے۔

لیکن اللہ کو منظور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض باتیں مجھے سنا ہی دے، چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: "ہائے مجھ پر میری ماں کی آہ وفغاں! میں تو واللہ! ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا شاعر آدمی ہوں، مجھ پر بھلا برا چھپا نہیں رہ سکتا، پھر کیوں نہ میں اس شخص کی بات سنوں؟ اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا، بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔"

یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر پلٹے تو میں بھی پیچھے ہولیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آمد کا واقعہ اور لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت، پھر کان میں روئی ٹھونسنے اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سن لینے کی تفصیلات بتائیں، پھر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بات پیش کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔

اللہ گواہ ہے میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی، چنانچہ میں نے وہیں اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میری قوم میں میری بات مانی جاتی ہے، میں ان کے پاس پلٹ کر جاؤں گا اور انہیں اسلام کی دعوت دوں گا، لہٰذا آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی نشانی دے دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی۔

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کو جو نشانی عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی قوم کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے پر چراغ جیسی روشنی پیدا کردی، انہوں نے کہا: "یا اللہ! چہرے کے بجائے کسی اور جگہ (یہ نشانی عطا فرما)، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے مثلہ کہیں گے۔"

چنانچہ یہ روشنی ان کے ڈنڈے میں پلٹ گئی، پھر انہوں نے اپنے والد اور اپنی بیوی کو اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوں مسلمان ہوگئے، لیکن قبیلہ والوں نے ان کی بات نہ سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ ان کے لئے بددعا فرمائیے۔

لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بجائے بددعا کے یہ دعا کی: "اے اللہ! دوس کو ہدایت دے۔" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا اثر یہ ہوا کہ پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا اور غزوہ ٔ طائف کے موقع پر پورا قبیلہ دوس حاضر تھا، ان ہی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے،  جن کی قسمت میں امام المحدثین بننا تھا۔

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک مدینہ میں رہے اور 11 ہجری میں مسیلمہ کذّاب کے خلاف لڑتے ہوئے یمامہ میں شہید ہوئے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں