سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 86


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 86 

مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے سب سے پہلے مہاجر: 


جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہوگئی اور اسلام، کفر وجہالت کے لق ودق صحرا میں اپنے ایک وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور یہ سب سے اہم کامیابی تھی جو اسلام نے اپنی دعوت کے آغاز سے اب تک حاصل کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اپنے وطن کی طرف ہجرت کرجائیں۔

ہجرت کے معنی یہ تھے کہ سارے مفادات تج کر اور مال کی قربانی دے کر محض جان بچالی جائے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جان بھی خطرے کی زد میں ہے، ابتدائے راہ سے انتہائے راہ تک کہیں بھی ہلاک کی جاسکتی ہے، پھر سفر ایک مبہم مستقبل کی طرف ہے، معلوم نہیں آگے چل کر ابھی کون کون سے مصائب اور غم والم رونما ہوں گے۔

مسلمانوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہجرت کی ابتدا کردی، ادھر مشرکین نے بھی ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مضمر ہیں،  ہجرت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں: 

سب سے پہلے مہاجر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے ابن اسحاق کے بقول بیعت عقبہ کُبریٰ سے ایک سال پہلے ہجرت کی تھی، ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے، جب انہوں نے روانہ ہونا چاہا تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ یہ رہی آپ کی جان، اس کے متعلق تو آپ ہم پر غالب آگئے،  لیکن یہ بتائیے کہ یہ ہمارے گھر کی لڑکی؟ آخر کس بنا پر ہم آپ کو چھوڑ دیں کہ آپ اسے شہر شہر گھماتے پھریں؟ چنانچہ انہوں نے ان سے ان کی بیوی چھین لی۔

اس پر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو تاؤ آگیا اور انہوں نے کہا کہ جب تم لوگوں نے اس عورت کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو ہم اپنا بیٹا اس عورت کے پاس نہیں رہنے دے سکتے،  چنانچہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے اس کو اپنے پاس لے گئے، خلاصہ یہ کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے تنہا مدینہ کا سفر کیا۔

اس کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی روانگی اور اپنے بچے سے محرومی کے بعد روزانہ صبح صبح ابطح پہنچ جاتیں، جہاں یہ ماجرا پیش آیا تھا اور شام تک روتی رہتیں، اسی حالت میں ایک سال گزر گیا، بالآخر ان کے گھرانے کے کسی آدمی کو ترس آگیا اور اس نے کہا کہ اس بیچاری کو جانے کیوں نہیں دیتے؟ اسے خواہ مخواہ اس کے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے، اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان کے گھر والوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیٹے کو اس کے ددھیال والوں سے واپس لیا اور مدینہ چل پڑیں،  اللہ اکبر! کوئی پانچ سو کلومیٹر کی مسافت کا سفر اور ساتھ میں اللہ کی کوئی مخلوق نہیں، جب تَنَعِیم پہنچیں تو عثمان بن ابی طلحہ مل گیا، اسے حالات کی تفصیل معلوم ہوئی تو مشایعت کرتا ہوا مدینہ پہنچانے لے گیا اور جب قباء کی آبادی نظر آئی تو بولا: "تمہارا شوہر اسی بستی میں ہے، اسی میں چلی جاؤ، اللہ برکت دے۔" اس کے بعد وہ مکہ پلٹ آیا۔

ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی لیلیٰ بنت ابی حشمہ رضی اللہ عنہا کا نام مہاجرین کی فہرست میں اول ہے، اس کے بعد حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چھپ کر مدینہ روانہ ہوئے، اس کے بعد ہجرت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان سے کفار قریش نے کہا: "تم ہمارے پاس آئے تھے تو حقیرو فقیر تھے، لیکن یہاں آ کر تمہارا مال بہت زیادہ ہوگیا اور تم بہت آگے پہنچ گئے، اب تم چاہتے ہو کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں لے کر چل دو تو واللہ! ایسا نہیں ہوسکتا۔"

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنا مال چھوڑ دوں تو تم میری راہ چھوڑ دوگے؟" انہوں نے کہا: "ہاں!" حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا تو پھر ٹھیک ہے، چلو میرا مال تمہارے حوالے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "صہیب نے نفع اٹھایا، صہیب نے نفع اٹھایا۔"

حضرت عبداللہ بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ حبشہ میں تھے، مسلمانوں کی مدینہ کو ہجرت سن کر مکّہ آئے، والد نے پکڑ کر قید کردیا اور تکلیفیں دینی شروع کردیں، آخر تنگ آ کر باپ کو یقین دلایا کہ آبائی دین کی طرف لوٹتا ہوں، اس طرح قید سے نجات پائی، جنگ بدر میں جب مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہوئیں تو موقع پا کر مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوگئے، ان کے والد سہیل (رضی اللہ عنہ) فتح مکہ کے روز ایمان لائے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں