سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 74
مختلف قبائل میں تبلیغ اسلام:
طائف سے مکہ واپس ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افراد اور قبائل کو پھر سے اسلام کی دعوت دینی شروع کردی، حج کے زمانے میں عرب کے مختلف قبائل مکہ میں جمع ہوتے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ ایک ایک قبیلہ والوں کے پاس جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے۔
عرب میں مختلف مقامات پر میلے لگتے تھے جن میں دور دور کے قبائل آتے تھے، مؤرخین نے ان میلوں میں عکاظ، مجنّہ اور ذوالمجاز کا نام خاص طور پر لیا ہے، حج کا بڑا میلہ منیٰ میں ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میلوں میں جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے، قبائل عرب میں سے بنو عامر، بنو محارب، بنو سُلیم، حارث بن کعب، فزارہ، غسّان، مرّہ، حنیفہ، بنو عبس، بنو نضر، کندہ، کلب، عذرہ، حضارمہ (حضرموت کے رہنے والے) مشہور قبائل ہیں، آپ ان سب قبائل کے پاس تشریف لے گئے، لیکن ابو لہب ہر جگہ ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مجمع کو مخاطب کرتے تو برابر سے کہتا: "دین سے پھر گیا ہے اور جھوٹ کہتا ہے۔"
بنی حنیفہ یمامہ میں آباد تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے پاس گئے تو انہوں نے نہایت تلخی سے جواب دیا: "مسیلمہ کذّاب" جس نے آگے چل کر نبوت کا دعویٰ کیا، اسی قبیلہ کا رئیس تھا۔
آپ نے بازار ِعکاظ میں بنو عامر کے سامنے اسلام پیش کیا تو ان میں سے ایک شخص "بحیرہ بن فراس قشیری" نامی نے کہا: "اگر ہم مسلمان ہوجائیں اور آپ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو تو کیا آپ اپنے بعد ہم کو اپنا خلیفہ بناؤ گے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، وہ جس کو چاہے گا وہی میرا خلیفہ ہوجائے گا۔"
یہ سُن کر اس شخص نے کہا: "کیا خوب! اس وقت تو ہم آپ کے مطیع وحامی بن کر اپنی گردنیں کٹوائیں اور جب آپ کامیاب ہوجاؤ تو دوسرے لوگ حکومت کا مزا اُڑائیں، جاؤ! ہم کو تمہاری ضرورت نہیں۔" پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر کہا: "جائیے! اور اپنی قوم سے مل جائیے، اگر آپ میری قوم کے پاس نہ ہوتے تو میں آپ کا سر تن سے جدا کر دیتا۔"
یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے، بحیرہ نے اونٹنی کے پیٹ پر زور سے ڈنڈا مارا جس سے وہ اچھل پڑی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نیچے گرا دیا۔
اتفاق سے بنی عامر کی ایک خاتون "ضباعہ عامر بن قرط" رضی اللہ عنہا وہاں موجود تھیں، جنہوں نے مکہ میں حضور کے ہاتھ پر ایمان قبول کر لیا تھا، انہوں نے فوراً اپنے چچا زاد بھائیوں کو للکارا، "اے آل عامر! اب میرا تم سے کوئی تعلق نہیں، تمہارے سامنے یہ بد سلوکی ہو رہی ہے اور تم میں سے کوئی انہیں نہیں بچاتا۔" ان کے بھائیوں میں سے تین شخص اُٹھے اور بد سلوکی کرنے والوں کی خوب مار پیٹ کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی اور بعد میں وہ ایمان لائے۔
جب قبیلہ بنو عامر اپنے علاقے میں واپس گیا تو اپنے ایک بوڑھے آدمی کو جو کبر سنی کے باعث حج میں شریک نہ ہوسکا تھا، سارا ماجرا سنایا اور بتایا کہ ہمارے پاس قبیلۂ قریش کے خاندان بنوعبد المطلب کا ایک جوان آیا تھا جس کا خیال تھا کہ وہ نبی ہے، اس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کی حفاظت کریں، اس کا ساتھ دیں اور اپنے علاقے میں لے آئیں۔
یہ سن کر اس بڈھے نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا اور بولا: "اے بنو عامر! کیا اب اس کی تلافی کی کوئی سبیل ہے؟ اور کیا اس ازدست رفتہ کو ڈھونڈھا جاسکتا ہے؟ اللہ کی قسم! کسی اسماعیلی نے کبھی اس (نبوت) کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا، یہ یقینا حق ہے، آخر تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی؟"
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ان کے سردار مفروق بن عمرو اور ہانی بن قبیصہ سے ہوئی، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: "میرے ساتھ اللہ کے آخری نبی آئے ہیں" مفروق نے کہا: "میں نے آپ کا تذکرہ سنا ہے" پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا: "اے برادر قریش! آپ کی دعوت کیا ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اللہ ایک ہے اور میں اس کا پیغمبر ہوں" پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۂ انعام کی آ یت ۱۵۱ پڑھ کر سنائی، اس قبیلہ کے روساء مفروق ، مثنیٰ اور ہانی نے کلام اللہ کی تحسین کی اور کہا: "بے شک یہ کلام زمین والوں کا نہیں ہو سکتا۔"
واضح رہے کہ ان ذکر کردہ سارے قبائل پر ایک ہی سال یا ایک ہی موسم حج میں اسلام پیش نہیں کیا گیا تھا، بلکہ نبوت کے چوتھے سال سے ہجرت سے پہلے کے آخری موسم حج تک دس سالہ مدت کے دوران پیش کیا گیا تھا، البتہ بیشتر قبائل کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دسویں سال تشریف لے گئے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں