سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 94
ام معبد اور آپ ﷺ کے اوصاف وکمالات کا نقشہ:
اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر "اُمّ معبد خزاعیہ" کے خیمے سے ہوا، یہ خیمہ قدید کے اطرف میں مشلل کے اندر واقع تھا، اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے۔
اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں، خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس کچھ ہے؟ بولیں: "واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی، بکریاں بھی دور دراز ہیں۔" یہ قحط کا زمانہ تھا-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے، فرمایا: "ام معبد! یہ کیسی بکری ہے؟" بولیں: "اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے؟ بولیں: "وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اجازت ہے کہ اسے دوھ لوں؟" بولیں: "ہاں! اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوھ لو۔"
اس گفتگو کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا، اللہ کا نام لیا اور دعا کی، بکری نے پاؤں پھیلا دیئے، تھن میں بھرپور دودھ اُتر آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگیا، پھر ام معبد کو پلایا، وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا، وہ بھی شکم سیر ہوگئے تو خود پیا، پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنا دودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر "ابو معبد" اپنی کمزور بکریوں کو جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں، ہانکتے ہوئے آپہنچے، دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے، پوچھا: "یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی؟"
بولیں:"واللہ! کوئی بات نہیں، سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا۔"
ابومعبد نے کہا: "یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے، جسے قریش تلاش کررہے ہیں، اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو۔"
اس پر اُمِ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف وکمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے، اُم معبد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تو کوئی تعارف تھا، نہ کسی طرح کا تعصب، بلکہ جو کچھ دیکھا من وعن کہہ دیا، اصل متن عربی میں دیکھنے کی چیز ہے، اس کا جو ترجمہ مؤلف "رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہے:
" پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہر کو نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراغ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مردمک، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دل بستگی لئے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں، مخدوم، مطاع، نہ کوتاہ سخن، نہ فضول گو۔" (زاد المعاد، جلد دوم رحمۃ للعالمین : قاضی سلیمان منصورپوری)
اُم معبد کی یہ قلمی تصویر سیرت کا ایک انمول خزانہ ہے، بعد میں دونوں میاں بیوی نے حضور صلی اللہ علی وسلم کے پاس آکر اسلام قبول کیا-
==================> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں