سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 83
مدینہ میں اسلام کا سفیر:
بیعت پوری ہوگئی اور حج ختم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کے ہمراہ یثرب میں اپنا پہلا سفیر بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دے اور جو لوگ اب تک شرک پر چلے آرہے ہیں ان میں اسلام کی اشاعت کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سفارت کے لیے سابقین اوّلین میں سے ایک جوان کا انتخاب فرمایا جس کا اسم گرامی مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہے۔
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر نزول فرما ہوئے، پھر دونوں نے مل کر اہلِ یثرب میں جوش وخروش سے اسلام کی تبلیغ شروع کردی، حضرت مصعب "مُقری" کے خطاب سے مشہور ہوئے، مقری کے معنی ہیں پڑھانے والا، اس وقت معلم اور استاد کو مقری کہتے تھے۔
تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک نہایت شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ انہیں ہمراہ لے کر بنی عبد الاشہل اور بنی ظفر کے محلے میں تشریف لے گئے اور وہاں بنی ظفر کے ایک باغ کے اندر مرق نامی کنویں پر بیٹھ گئے، ان کے پاس چند مسلمان بھی جمع ہوگئے، اس وقت تک بنی عبد الاشہل کے دونوں سردار یعنی حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اُسید بن حضیر مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ شرک ہی پر تھے، انہیں جب خبر ہوئی تو حضرت سعد نے حضرت اُسید سے کہا: "ذرا جاؤ اور ان دونوں کو جو ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بنانے آئے ہیں، ڈانٹ دو اور ہمارے محلے میں آنے سے منع کردو، چونکہ اسعد بن زرارہ میری خالہ کا لڑکا ہے اس لیے تمہیں بھیج رہا ہوں ورنہ یہ کام میں خود انجام دے دیتا۔"
حضرت اسید نے اپنا حربہ اٹھایا اور ان دونوں کے پاس پہنچے، حضرت اسعد نے انہیں آتا دیکھ کر حضرت مصعب سے کہا: "یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پا س آرہا ہے، اس کے بارے میں اللہ سے سچائی اختیار کرنا۔"
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: "اگر یہ بیٹھا تو اس سے بات کروں گا۔"
حضرت اُسَیْد پہنچے تو ان کے پاس کھڑے ہو کر بولے: "تم دونوں ہمارے یہاں کیوں آئے ہو؟ ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بناتے ہو؟ یاد رکھو! تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو ہم سے الگ ہی رہو۔"
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیوں نہ آپ بیٹھیں اور کچھ سنیں، اگر کوئی بات پسند آجائے تو قبول کرلیں، پسند نہ آئے تو چھوڑ دیں۔"
حضرت اسید نے کہا: "بات منصفانہ کہہ رہے ہو۔" اس کے بعد اپنا حربہ گاڑ کر بیٹھ گئے، اب حضرت مصعب نے اسلام کی بات شروع کی اور قرآن کی تلاوت فرمائی، حضرت اسید سن کر جھومنے لگے اور پکار اٹھے: "یہ کلام کس قدر عمدہ اور بہتر ہے۔" پھر اسی وقت داخل اسلام ہوگئے، پھر بولے: "میرے پیچھے ایک اور شخص ہے، اگر وہ تمہارا پیروکار بن جائے تو اس کی قوم کا کوئی آدمی پیچھے نہ رہے گا اور میں اس کو ابھی تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔" (اشارہ حضرت سعد بن معاذ کی طرف تھا)
اس کے بعد حضرت اُسید رضی اللہ عنہ نے اپنا حربہ اٹھایا اور پلٹ کر حضرت سعد کے پاس پہنچے، وہ اپنی قوم کے ساتھ محفل میں تشریف فرما تھے، حضرت اُسید نے کہا: "میں نے ان دونوں سے بات کی تو واللہ! مجھے کوئی حرج تو نظر نہیں آیا، ویسے میں نے انہیں منع کردیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم وہی کریں گے جو آپ چاہیں گے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی حارثہ کے لوگ اسعد بن زرارہ کو قتل کرنے گئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسعد آپ کی خالہ کا لڑکا ہے، لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کا عہد توڑ دیں۔''
یہ سن کر حضرت سعد غصے سے بھڑک اٹھے اور اپنا نیزہ لے کر سیدھے ان دونوں کے پاس پہنچے، دیکھا تو دونوں اطمینان سے بیٹھے ہیں، سمجھ گئے کہ اُسید کا منشا یہ تھا کہ آپ بھی ان کی باتیں سنیں، لیکن یہ ان کے پاس پہنچے تو کھڑے ہو کر سخت سست کہنے لگے، پھر اسعد بن زرارہ کو مخاطب کرکے بولے: "اللہ کی قسم اے ابو امامہ! اگر میرے اور تیرے درمیان قرابت کا معاملہ نہ ہوتا تو تم مجھ سے اس کی امید نہ رکھ سکتے تھے، ہمارے محلے میں آکر ایسی حرکتیں کرتے ہو جو ہمیں گوارا نہیں۔"
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن معاذ سے کہا: "کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں، اگر کوئی بات پسند آگئی تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔"
حضرت سعد نے کہا: "انصاف کی بات کہتے ہو۔" اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے، حضرت مصعب نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت کی، ان کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت سعد کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگا لیا، حضرت سعد بن معاذ نے فرمایا: "تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو؟"
حضرت مصعب نے کہا: "آپ غسل کرلیں، پھر حق کی شہادت دیں، پھر دورکعت نماز پڑھیں۔" حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھایا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے، لوگوں نے دیکھتے ہی کہا: "ہم واللہ! کہہ رہے ہیں کہ سعد جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسرا ہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں۔"
حضرت سعد رضی اللہ عنہ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: "اے بنی عبد الاشہل! تم لوگ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو؟"
انہوں نے کہا: "آپ ہمارے سردار ہیں، سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔"
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: "اچھا تو سنو! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لاؤ۔" ان کی اس بات کا یہ اثر ہوا کہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہوگئی ہو، صرف ایک آدمی جن کا نام "اُصیرم" تھا، ان کا اسلام جنگِ احد تک مؤخر ہوا، پھر احد کے دن انہوں نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، انہوں نے ابھی اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر پایا۔
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ہی کے گھر مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے، یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورت مسلمان نہ ہوچکی ہوں، صرف بنی امیہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے مکانات باقی رہ گئے تھے، مشہور شاعر ابو قیس بن اسلت انہیں کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے، اس شاعر نے انہیں جنگ خندق ( ۵ ہجری ) تک اسلام سے روکے رکھا۔
بہرحال اگلے موسمِ حج یعنی تیرہویں سال نبوت کا موسمِ حج آنے سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کامیابی کی بشارتیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مکہ تشریف لائے اور آپ کو قبائل یثرب کے حالات، ان کی جنگی اور دفاعی صلاحیتوں اور خیر کی لیاقتوں کی تفصیلات سنائیں۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں