سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 81
واقعہ معراج اور قریش کا رویہ:
امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرم میں یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کی تکذیب کی اور کہا کہ مکہ سے بیت المقدس جانے کے لئے ایک مہینہ اور واپس آنے کے لئے ایک مہینہ کا عرصہ لگتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سفر راتوں رات طے کر لیا جائے اور آپ آسمان پر بھی جا کر آئیں؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت بیان کریں، اس پر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بیت المقدس کو ظاہر فرما دیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے آ گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قوم کو اس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان سے کسی بات کی تردید نہ بن پڑی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلے سے ملنے کا بھی ذکر فرمایا اور بتلایا کہ اس کی آمد کا وقت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلے کے آگے آگے آرہا تھا، پھر جیسا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا لیکن ان سب کے باوجود ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا اور ان ظالموں نے کفر کرتے ہوئے کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا۔
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہے تو بالکل سچ ہے اور میں اس واقعہ کی تصدیق کرتا ہوں، اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو "صدیق" کا لقب عطا فرمایا۔
مسجد اقصی کے پادری کی گواہی
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد 7 ہجری میں حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ قیصر روم "ہرقل" کے پاس نامہ مبارک بھیج کر اسلام کی دعوت دی، ہرقل نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ حجاز کا کوئی تاجر موجود ہو تو اسے بلا لائے، اتفاق سے اس وقت تاجروں کے ایک قافلہ کے ساتھ ابوسفیان (رضی اللہ عنہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) موجود تھے، جن سے ہرقل نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوالات کئے، ان سوالات کے جوابات دینے کے دوران ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کو معراج کے واقعہ کا خیال آیا اور انہوں نے اسے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کرتے ہوئے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور پھر واپس آئے، (مقصد غالباً یہ تھا کہ یہ بات بتا کر ہرقل کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق شک و شبہ میں ڈالا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاذ اللہ جھوٹا ثابت کیا جائے)
ہرقل کے دربار میں اتفاق سے اس وقت مسجد اقصیٰ کا لارڈ پادری موجود تھا، جس نے یہ بتلایا کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے مسجد اقصیٰ کے تمام دروازے بند کر دیتا تھا، لیکن اس رات کوشش کرنے کے باوجود صدر دروازہ بند نہیں ہوا، آخر کار انہوں نے نجاروں کو بلوا کر اسے بند کرنا چاہا، مگر باوجود کوشش کے وہ ناکام رہے، اس لئے دروازہ کھلا چھوڑ کر سب لوگ گھروں کو چلے گئے، پادری جب علی الصباح مسجد آیا تو مسجد کے دروازہ کو بالکل ٹھیک پایا، مسجد کے قریب چٹان میں سوراخ دیکھا جس سے کسی جانور کو باندھنے کا نشان تھا۔
پادری نے کہا کہ رات کو دروازے کا کھلا رہنا صرف اس نبی کے لئے تھا جس کی بشارت حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی اور یہ کہ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں رات میں ضرور نماز پڑھی ہوگی۔ (سیرت احمد مجتبی.. زاد المعاد)
==================> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں