سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 13


*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 13*


*جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں (حصہ اول)*

پچھلی دو اقساط میں عربوں میں بت پرستی کی تاریخ اور ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے وقت سرزمین عرب اور خصوصا" مکہ و مدینہ میں رائج مختلف ادیان اور عقائد کا جائزہ لیا گیا، اس قسط میں ظہور اسلام کے وقت عربوں اور خصوصا" قریش مکہ کے معاشی اور معاشرتی حالات بیان کیے جائیں گے۔

ظہور اسلام کے وقت اگر عرب معاشرے کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو ایک بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ تب کا عرب معاشرہ ایک ہی وقت میں اچھی بری متضاد خصلتوں کا شکار تھا، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اچھی بری یہ متضاد خصلتیں اپنی پوری شدت سے ان میں سرائیت پزیر تھیں، ایسے میں اگر ہم ان میں رائج بد عادات و رسوم و رواج کو مدنظر رکھیں تو عرب معاشرہ ایک بدترین معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے اور اگر ہم عربوں کے اوصاف حمیدہ کو سامنے رکھیں تو درحقیقت ان سے بہتر انسانی معاشرہ اور معاشرتی اقدار کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

بنیادی طور پر عرب معاشرہ تین طبقات پر مشتمل تھا۔

*1 : حضری:*

وہ لوگ جو شھروں میں آباد تھے اور مستقل طور پر شھروں میں ہی سکونت پذیر تھے، ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی، حضری عربوں کا ذریعہ آمدنی نخلستانوں کی آمدن اور تجارت تھا، درحقیقت یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے پردادا حضرت ہاشم تھے جنہوں نے روم و ایران اور شام و ہندستان کے حکمرانوں کے ساتھ تجارتی معاہدات کیے، اس طرح عرب لوگ بڑے بڑے قافلوں کی صورت میں ان کے ممالک جاتے اور وہاں سے قافلے عرب آتے، قریش مکہ کو کیونکہ خانہ کعبہ کی تولیت کی وجہ سے مرکزی اہمیت حاصل تھی، اس لیے قریش مکہ کے قافلوں کو عرب کے بدوی قبائل لوٹنے سے بھی گریز کرتے۔

*2 : بدوی:*

عرب کی اکثر آبادی بدوی قبائل پر مشتمل تھی جو خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتی تھی، ان کا اصل ذریعہ معاش گلہ بانی یعنی جانور پالنا تھا، اس لیے جہاں کہیں چراگاہ نظر آتی وہیں ڈیرے ڈال دیئے جاتے تھے، جب اس چراگاہ میں ان کے جانوروں کی خوراک ختم ہوجاتی تو وہاں سے کسی اور جگہ کا رخ کرتے، اس کے علاوہ رہزنی بھی ان کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھا، یہ لوگ عرب کے صحراؤں میں آتے جاتے قافلوں کو لوٹ لیتے جو قبائل ڈاکہ کے ذریعے روزی کماتے تھے وہ اس پر بہت فخر کیا کرتے تھے..

*3 : لونڈی اور غلام:*

معاشرے کا تیسرا اور سب سے نچلا طبقہ لونڈیوں اور غلاموں کا تھا جو حضری و بدوی عربوں کے ساتھ خادم کی حیثیت سے رہتے تھے، غلاموں میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل تھے، عرب تو قبائل کی آپس کی جنگ میں مغلوب ہونے یا پھر مقروض ہونے کی وجہ سے لونڈی اور غلام بنا لیے جاتے، جبکہ غیر عرب بکتے بکاتے سرزمین عرب پہنچتے جہاں باقاعدہ منڈیوں اور بازاروں میں ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی، مالک کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے غلام پر جس طرح چاہے ظلم ڈھاۓ اور چاہے تو اسے جان سے ہی مار ڈالے، معمولی معمولی باتوں پر غلاموں کو اتنی سخت سزائیں دی جاتیں کہ انسانیت کی روح بھی کانپ اٹھتی، غلام کا بیٹا بھی پیدائشی غلام ہوتا تھا، اسی طرح لونڈیاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنتی تھیں اور ان سے بدکاری کا پیشہ بھی کرایا جاتا تھا، ناچ گانے جاننے والی لونڈیوں کی قیمتیں نسبتا" زیادہ ہوتی تھیں، غرضیکہ غلاموں اور لونڈیوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور اولاد سب کی سب ان کے آقا کی ہی ملکیت ہوتی تھی۔

عرب معاشرے میں جنگ و جدل کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا، مگر اس جنگ و جدل، مسلسل خانہ جنگی اور صدیوں تک جاری رہنے والے باہمی بغض و عناد اور تعصب و عداوت کے باوجود عرب ایک مشترکہ ثقافت رکھتے تھے جس کے بنیادی عناصر میں اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا، ان کی روایات کو برقرار رکھنا اور مشترکہ زبان عربی کو گنوایا جاسکتا ہے۔

عرب نسلی طور پر قحطانی اور عدنانی (بنو اسماعیل) دو گروہوں میں بٹے ہوتے تھے، لیکن دونوں کو عربی زبان پر فخر تھا، شعرو شاعری بچے بچے کی زبان پر تھی اور شعری ذوق اور عرب ثقافت کا بھرپور اظہار طائف کے قریب "عکاظ" کے مقام پر ہر سال لگنے والے میلہ میں کیا جاتا، عام حالات میں ایک عرب جنگجو سپاہی تھا، مگر اس میلے میں وہ بھی ایک شاعر کا روپ دھار لیتا، شراب خوری کی مجلسیں سجائی جاتیں اور گردش جام کے ساتھ ایسی بلند پایہ غزلیں کہی جاتیں کہ آج تک اس دور کے ادب کو کلاسیکی مانا جاتا ہے، فاحشہ عورتوں کی موجودگی نے ان مجالس کو بیہودگی کی انتہائی پستیوں تک پہنچا دیا تھا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں