سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 24
کفر و شرک کے ایوان لرز اٹھے:
سابقہ قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت پیش آنے والے چند غیر معمولی واقعات بیان کیے گئے.. اس قسط میں ایسا ہی ایک غیر معمولی واقعہ جو شہنشاہ ایران کے محل میں پیش آیا , بیان کیا جائے گا..
حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن سہل الخرائطی اپنی کتاب "ھواتف الجان" میں مختلف حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ایران کے مشھور بادشاہ "نوشیرواں" کے ایوان میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے ایوان کے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گرپڑے..
اگر بات یہاں تک ہی محدود رہتی تو اسے ایک حادثہ سمجھ کر توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا مگر اس زلزلہ کے ساتھ چند اور بہت ہی غیر معمولی اور چونکا دینے والی باتیں بھی ظہور پذیر ہوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ شاہی آتش کدے میں پچھلے ہزار سال سے روشن آگ بھی بنا کسی وجہ کے ٹھنڈی پڑگئی..ایک ہزار سال میں ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ اس مقدس آتش کدے کی آگ بجھی ہو.. دوسری طرف بحیرہ ساوہ بھی حیران کن طور پر جوش (کھا کر ابلنے) والا ہوگیا..
نوشیرواں یہ تمام واقعات دیکھ کر چونک گیا.. اس نے اپنے مشیر "موبذان" کو بلا کر یہ سب واقعات سنائے اور اس کی رائے طلب کی..
موبذان نے نوشیرواں کو بتایا کہ کل رات اس نے بھی ایک عجیب خواب دیکھا ہے کہ عرب کی طرف سے انسانوں کے غول کے غول اونٹوں پر سوار فارس (ایران) کی طرف امڈے آرہے ہیں اور انہوں نے دریائے دجلہ کو بھی عبور کرلیا ہے..
نوشیرواں جو پہلے ہی ان واقعات کی وجہ سے گہری سوچ میں تھا , یہ خواب سن کر پریشان ہوگیا.. اس نے موبذان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی..
موبذان نے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سارے واقعات اور پھر یہ خواب معمولی نہیں ہیں تو بہتر ھے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک تعبیر جاننے کے لیے کسی عالم سے رابطہ کرلینا چاہئیے.. چنانچہ نوشیرواں نے موبذان کے مشورہ پر ایک خط لکھ کر یمن میں اپنے نائب السلطنت حاکم "نعمان بن منذر" کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہو اور اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کو لائے جو بڑا عالم ہو اور نوشیرواں کے تمام سوالوں کے جواب دے سکے..
کسریٰ ایران (ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوتا تھا جیسے روم کے حکمران "قیصر" اور مصر کے حکمران "فرعون" کہلاتے تھے) کا یہ شاہی فرمان ملتے ہی نممان بن منذر فوراً نوشیرواں کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور کسریٰ کے حسب الحکم ایک بہت بڑے عیسائی عالم شخص "عبدالمسیح بن عمرو بن حیان بن نفیلہ غسانی" کو بھی ساتھ لے آیا..
نوشیرواں نے عبدالمسیح بن عمرو کو تمام واقعات اور موبذان کا خواب سنایا اور پھر انکی تعبیر پوچھی.. عبد المسیح بن عمرو نے جواب دیا کہ اگر حضور چاہیں تو ان واقعات اور خواب کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرسکتا ہوں لیکن میری گزارش ہے کہ اس کے بارے میں میرے ماموں "سطیح" سے جو شام میں قیصر روم کی طرف سے نائب السلطنت ہیں , دریافت کیا جئے کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ علم والے ہیں اور کہانت کے فن میں بھی طاق ہیں اور اس بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکتے ہیں..
نوشیرواں کو عبدالمسیح کی بات پسند آئی اور اس نے اپنے کچھ آدمی اس کے ساتھ کرکے اسے اس کے ماموں سطیح کے پاس شام بھیج دیا..
عبدالمسیح بن عمرو شام کے دارالحکومت دمشق اپنے ماموں سطیح کے دربار میں پہنچا جہاں وہ اپنی ذرۤیں مسند پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا.. عبدالمسیح نے اسے سارے واقعات اور خواب سنا کر کہا کہ وہ شہنشاہ فارس نوشیرواں کی طرف سے آیا ہے اور نوشیرواں کی خواہش پر ان کی تعبیر جاننا چاہتا ہے..
عبدالمسیح کی باتیں سن کر سطیح چپ ہو گیا اور کسی نہایت گہری سوچ میں ڈوب گیا.. عبدالمسیح نے جب کوئی جواب نہ پایا تو یہ سمجھ کر کہ سطیح نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے شکایتاً چند اشعار پڑھے جن میں سطیح کے عدم التفات کا گلہ کیا..
سطیح اشعار سن کر اپنے استغراق سے باہر آیا اور کہا.. "جو واقعات تم نے بیان کیے ہیں اگر وہ صحیح ہیں اور جو خواب موبذان نے دیکھا ہے وہ اس نے صحیح طور پر بیان کیا ہے تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف کسریٰ ایران کے ہاتھ سے سلطنت چھن جائے گی بلکہ یہ شام جس پر میں آج کل قیصرروم کی طرف سے حاکم بنا بیٹھا ہوں یہ بھی انہی عرب ناقہ (اونٹ) سواروں کے قبضے میں چلا جائے گا جنہیں موبذان نے خواب میں دریائے دجلہ عبور کرتے دیکھا ہے.."
جب عبدالمسیح نے اپنے ماموں سطیح کا جواب نوشیرواں کو فارس واپس آ کر سنایا تو نوشیرواں نے کہا کہ ابھی تو میری اولاد میں کئی پشتوں تک حکمرانی چلے گی اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا..
بہرکیف تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ بعد سطیح کی پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے آخری آیام سے فارس و روم کے خلاف جو فوج کشی شروع ہوئی وہ بالآخر تیسرے خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی' عنہ کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور نہ صرف ایران کی تین ہزار ایک سو چونسٹھ سال سے جاری شہنشائیت کو مجاہدین اسلام نے اپنے گھوڑوں کی سموں تلے روند دیا بلکہ سرزمین شام پر بھی اسلامی علم لہرا دیا گیا..
---------------->جاری ھے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں