سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 33
====================
روئے مبارک کے وسیلے سے فیضانِ باراں کی طلب:
ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا، لوگ قحط سے دوچار تھے، قریش نے کہا: ابو طالب! وادی قحط کا شکار ہے، بال بچے کال کی زد میں ہیں، چلیے! (کعبہ چل کر) بارش کی دعا کیجیے۔
حضرت ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے، بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا، جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو، اس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے، حضرت ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی، بچے نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی، اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا، لیکن (دیکھتے ہی دیکھتے ) اِدھر اُدھر سے بادل کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر وبیاباں شاداب ہوگئے، بعد میں حضرت ابوطالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں کہا تھا:
وأبیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل
"وہ ایسے روشن و منور ہیں کہ ان کے چہرے کی برکت سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گانے بجانے کی محفل سے محفوظ:
حضرت ابو طالب کے مکان میں قیام کے دوران دو اہم واقعات پیش آئے۔ ایک یہ کہ ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں مکہ میں ایک جگہ گانے بجانے کی محفل منعقد ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس محفل میں شرکت کی خاطر بکریوں کو ایک ساتھی چرواہے کے حوالے کیا اور محفل کے مقام تک پہنچے جو چراگاہ سے دُور تھی، گرمی میں دور تک چل کر آنے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت تھک گئے تھے اور محفل ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے سایہ تلے لیٹ گئے تو آنکھ لگ گئی، جب بیدار ہوئے تو محفل ختم ہو چکی تھی، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس محفل سرود میں شریک نہ ہو سکے اور آئندہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کے لہو و لعب میں شرکت کرنے کا خیال تک نہ آیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بت پرستی سے محفوظ:
دوسرا واقعہ یہ کہ ایک مقام پر کھجور کے دو مقدس درخت تھے، جہاں بوانہ نامی بت نصب تھا، لوگ وہاں جا کر بت پر جانور بھینٹ چڑھاتے، سر منڈاتے اور دیگر مشرکانہ رسوم ادا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر سال اس تقریب میں شرکت کے لئے کہا جاتا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار فرماتے۔ ایک مرتبہ چچاؤں اور پھوپھیوں کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں گئے، لیکن بہت دیر تک نظروں سے اوجھل رہے، جب دکھائی دئیے تو چہرے پر خوف کے آثار تھے، پھوپھیوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بھی اُس بُت کے قریب جانا چاہتا تو ایک سفید رنگ اور دراز قد شخص میرے قریب آتا اور کہتا کہ "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! پیچھے ہٹ جائیے اور بت کو ہاتھ مت لگائیے" اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ایسی تقریب میں نہیں گئے، جہاں بتوں پر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی۔
ایک بار قبیلہ لہب کا ماہر قیافہ شناس مکہ آیا، سب لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لے گئے، حضرت ابو طالب بھی اپنے بچوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے پاس لے گئے، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور پھر کسی کام میں مشغول ہو گیا، تھوڑی دیر بعد اس نے آپ کو اپنے سامنے لانے کو کہا، لیکن حضرت ابو طالب نے اس کا تجسس دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر بھیج دیا، اس نے کہا کہ اس بچہ کو میرے پاس لاؤ، خدا کی قسم! وہ بہت بڑا آدمی بننے والا ہے۔
شام کا تجارتی سفر:
حضرت ابوطالب کا پیشہ بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح تجارت تھا، وہ سال میں ایک بار تجارت کی غرض سے ملک شام کو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر تقریباً بارہ برس تھی کہ حضرت ابوطالب نے حسب دستور شام کے تجارتی سفر کا ارادہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا، حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کم عمری، دوران سفر مشکلات اور تکلیفوں یا کسی اور وجہ سے آپ کو ساتھ نہ لے جانا چاہا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شفیق چچا سے اتنی محبت تھی کہ جب حضرت ابوطالب چلنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے لپٹ گئے، اب حضرت ابوطالب کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود سے جدا کرنا ممکن نہ رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا۔
مؤرخین کے مطابق اسی سفر شام کے دوران ایک عیسائی راہب "بحیرہ" کا مشہور واقعہ پیش آیا، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں، اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پالیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کردیا اور واپس مکہ آ گئے۔
اس واقعہ کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں