*سيرت النبي کریم صلي الله عليه وسلم..قسط: 18*
*تذکرۂ خانوادۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حصہ دوم)*
*3: حضرت عبد المطلب:*
پچھلی قسط میں حضرت ہاشم کے سفر شام , یثرب میں نکاح اور پھر فلسطین میں وفات کا ذکر کیا گیا، ان کی وفات کے بعد 497ء میں ان کی زوجہ سلمی' سے ایک بیٹا پیدا ہوا، چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی، اس لیے جناب سلمیٰ نے اس کا نام "شَیْبہ" رکھا اور یثرب میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی، آگے چل کر یہی بچہ "عبد المُطَّلِبْ" کے نام سے مشہور ہوا، عرصے تک خاندانِ ہاشم کے کسی آدمی کو اس کے وجود کا علم نہ ہوسکا۔
سِقَایہ اور رِفادہ کا منصب ہاشم کے بعد ان کے بھائی مطۤلب کو ملا، یہ بھی اپنی قوم میں بڑی خوبی واعزاز کے مالک تھے، ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب "فیاض" رکھ چھوڑا تھا، جب شیبہ یعنی عبدالمطلب سات یا آٹھ برس کے ہوگئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا اور وہ انہیں لینے کے لیے روانہ ہوئے، جب یثرب کے قریب پہنچے اور شیبہ پر نظر پڑی تو اشک بار ہوگئے، انہیں سینے سے لگا لیا اور پھر اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکہ کے لیے روانہ ہوگئے، مگر شیبہ نے ماں کی اجازت کے بغیر ساتھ جانے سے انکار کردیا، اس لیے مطلب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے، آخر ماں نے اجازت دے دی اور مُطَّلِب انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے، مکے والوں نے دیکھا تو کہا "یہ عبدالمطب ہے" یعنی مُطَّلب کا غلام ہے، مطلب نے کہا "نہیں نہیں یہ میرا بھتیجا یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے" پھر شَیبہ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے۔
مکہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی مطلب بن عبد مناف کی وفات یمن کے سفر میں ہو گئی تو ان کے چھوڑے ہوئے مناصب عبدالمطلب کو حاصل ہوئے، سرداری اور کعبہ کے زائرین کی خدمت پر جو مطلب بن عبد مناف نے حضرت عبد المطلب کے سپرد کی تھی، نوفل بن عبد مناف نے قبضہ کرنا چاہا، حضرت عبد المطلب نے قریش کی مدد طلب کی مگر شنوائی نہ ہوئی، اس کے بعد حضرت عبد المطلب نے اپنے ماموں ابو سعد (ان کا تعلق بنو نجار سے تھا) کی مدد طلب کی جو 80 گھڑ سواروں کے ساتھ ان کی مدد کے لیے آئے، انہوں نے نوفل بن عبد مناف سے کہا کہ "اے نوفل! اگر تو نے عبد المطلب سے چھینا جانے والا حق انہیں واپس نہ کیا تو میں تلوار سے تمہاری گردن اڑا دوں گا۔"
اس پر نوفل نے ان کی بات مان لی، اس بات پر قریش کے معززین کو گواہ بنایا گیا، مگر جب حضرت عبد المطلب کے ماموں واپس مدینہ چلے گئے تو نوفل بن عبد مناف نے عبد شمس بن عبد مناف (بنو امیہ ان کی نسل سے ہیں) اور اس کی اولاد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور حضرت عبد المطلب کے خلاف تحریک شروع کی، بنو خزاعہ نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا اور بیت الندوہ میں بنو ہاشم سے ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا، اس طرح قریش کی سرداری حضرت عبد المطلب کے پاس ہی رہی۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف واعزاز حاصل کیا کہ ان کے آباء واجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکا تھا، قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت و قدر کی۔
*4: حضرت عبداللہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم)*
حضرت عبدالمطلب کے کل دس بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں، جن کے نام یہ ہیں:
حارث، زبیر، ابوطالب، عبداللہ، حمزہ (رضی اللہ عنہ)، ابولہب، غَیْدَاق، مقوم، صفار اور عباس (رضی اللہ عنہ)۔
ام الحکیم (ان کا نام بیضاء ہے) بَرّہ، عَاتِکہ، اَرویٰ، اُمَیْمَہ اور صفیہ (رضی اللہ عنہا)۔
حضرت عبداللہ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں، عبدالمطلب کی اوّلاد میں عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت، پاک دامن اور چہیتے تھے اور ذبیح کہلاتے تھے، ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عبدالمطلب کو بہت خواہش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ہوں، چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے، اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس بیٹے پیدا ہوئے، دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی، چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لےکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے، جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا، چنانچہ حضرت عبدالمطلب حضرت عبداللہ کو لےکر قربان گاہ کی طرف بڑھے۔
یہ دیکھ کر خاندان بنو ہاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا، بہت پریشان ہوئے، وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاہنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا، چنانچہ جب اس کاہنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جائے، عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دیے جاتے ہیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جائے اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جائے جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجائے اونٹوں پر نکلا، اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا۔
حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ سے ہوئی جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اور نسب و رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں، ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے، وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبداللہ کے پاس آئیں، مگر تھوڑے عرصے بعد حضرت عبداللہ کو حضرت عبدالمطلب نے کھجور لانے کے لیے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے۔
بعض اہل سِیر کہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے تھے، قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے اور وہیں انتقال کر گئے، تدفین نابغہ جَعدی کے مکان میں ہوئی، اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی، اکثر مؤرخین کے بقول ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا نہیں ہوئے تھے، البتہ بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ان کی وفات سے دو ماہ پہلے ہوچکی تھی۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں