سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔۔ قسط 27



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 27

حلیمہ رضی اللہ عنہا کی گود میں: 

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی چند ہم قبیلہ عورتوں کے ساتھ مکہ وارد ہوئیں، وہ کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں، اس قسط میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی وہ سب دلچسپ واقعات بیان کیے جائیں گے۔
ابن اسحق، جہم بن ابی جہم کی روایت سے حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی باتیں بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے خود یہ سارا واقعہ سنایا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: 

"جب قبیلہ بنی سعد (بنو ھوازن اسی بڑے قبیلہ کا ایک ذیلی قبیلہ تھا جس سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا تعلق تھا) میں کسی سال مکہ میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر پہنچتی تھی تو بنی سعد کی عورتیں ان بچوں کو اجرت پر دودھ پلانے کے لیے مکہ کی طرف لپکنے لگتی تھیں، پھر ایک سال ایسا ہی ہوا کہ مکہ کے معزز اور شریف خاندانوں میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر ملی تو بنی سعد کی دس عورتیں جن میں مَیں بھی شامل تھی، اپنے شوہر حارث بن عبدالعزّیٰ اور اپنے ایک شِیرخوار بچے کے ساتھ مکہ کی طرف چلیں، یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا، میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی، لیکن واللہ! اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا، اِدھر بھُوک سے بچہ اس قدر بِلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی، بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے، میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔

خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے، پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو، مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی، کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد ودہش کی امید رکھتے تھے، ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے، بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں؟ بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینا نہیں چاہتے تھے۔

ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا، صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا، جب واپسی کی باری آئی تو مجھے خالی ہاتھ جانا اچھا نہ لگا، میں نے اپنے شوہر سے کہا: "اللہ کی قسم! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے کر جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں، میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں، شوہر نے کہا: "کوئی حرج نہیں، ممکن ہے کہ اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔" یہ فیصلہ کرکے جہاں میری ساتھی عورتوں نے رات بھر کے لیے پڑاؤ ڈالا تھا، میں بھی رات گزارنے کے لیے وہیں ان کے ساتھ پڑگئی۔

وہ ساری رات میری آنکھوں میں کٹ گئی، کیونکہ نہ تو میرے یا میرے شوہر کے کھانے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی میری گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا تھا، میرا شِیرخوار بچہ عبداللہ ساری رات میرے پستان چچوڑتا رہا، لیکن چونکہ میں خود اس رات فاقہ سے تھی تو میری چھاتیوں سے دودھ کہاں سے اترتا، خیر وہ رات تو میں نے جیسے تیسے جاگ جاگ کاٹ لی اور صبح ہوتے ہی وہی یتیم بچہ لینے چل دی، یہ بھی خیال تھا کہ اس بچے کی ماں سے اتنا تو پیشگی مل ہی جائے گا کہ جس سے میں اپنے اور اپنے شوہر کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز اور اپنے گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا لے سکوں گی۔

جب میں اس بچے کو لینے اس کی ماں کے پاس پہنچی تو وہ مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور اپنا بچہ مجھے دیتے ہوۓ اس کی دودھ پلائی کی جو رقم مجھے دی وہ بھی میری توقع سے زیادہ تھی، اس کے علاوہ وہ بچہ جسے میں یتیم سمجھ کر مجبوراً لینے آئی تھی، اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت بچہ کبھی نہ دیکھا تھا، وہ جب ہمک کر میری گود میں آیا اور پھر میرے سینے سے لگا تو مجھے اتنا سکون ملا کہ جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔

جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے، اس نے جس قدر چاہا شکم سیر ہوکر پیا، اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا، پھر دونوں سوگئے حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے، ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے، انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری، صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا: "حلیمہ! اللہ کی قسم! تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔" میں نے کہا: "مجھے بھی یہی توقع ہے۔"

اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا، میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا، لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا، یہاں تک کہ میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں: "او ابو ذویب کی بیٹی! ارے یہ کیا ہے؟ آخر یہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی؟ (لیکن اب اتنی تیز رفتار کیسے)" میں کہتی: "ہاں ہاں! اللہ کی قسم یہ وہی ہے" وہ کہتیں: "اس کا یقیناً کوئی خاص معاملہ ہے۔"

================== جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں