سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 11


*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 11*
==========================

*آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے ادیان ومذاہب کا مختصر سا جائزہ:*


پچھلی اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ بیان کی گئی، اس قسط میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے مذاہب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے۔

*یہودیت:*

عرب میں بت پرستی کے بعد دوسرا اہم ترین مذہب یہودیت تھا، یہ لوگ دو وجہ سے سرزمین میں آباد ہوئے، ایک تو اس لیے کہ حضرت عیسی' علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے جب بابل کے بادشاہ "بخت نصر" نے فلسطین کو تاراج کیا اور تباہ و برباد کیا تو یہودیوں کے بہت سے قبائل جان بچاکر دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی طرف بھاگے، انہی میں سے چند قبائل عرب کی طرف آ نکلے اور خود کو یہاں محفوظ جان کر آباد ہوگئے۔

دوسری بہت اہم وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کو تورات و زبور کی پیش گوئیوں کی وجہ سے علم تھا کہ اللہ عنقریب اپنا آخری پیغمبر سرزمین عرب میں مبعوث فرمانے والا ہے، یہ اس نبی کو اپنا نجات دہندہ جانتے تھے، اس لیے یہ لوگ آخری نبی کے انتظار میں یہاں آ کر آباد ہوگئے، چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام سے لےکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے بھی نبی آۓ سب بنی اسرائیل میں سے ہی مبعوث ہوۓ تھے تو اس بناء پر ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل سے ہی ہوگا، مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی تو اس بات کے باوجود کہ تورات و زبور اور دوسرے الہامی صحائف میں آخری نبی کی جو نشانیاں بتائی گئی تھیں سب کی سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھلم کھلا نظر آ گئیں، مگر عرب کے یہود نے محض اس حسد اور تعصب پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسماعیل میں سے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی ماننے سے انکار کردیا۔

سب سے پہلے یہ لوگ یثرب (مدینہ) اور خیبر کے علاقہ میں آباد ہوئے، ان کے اثر سے کچھ مقامی افراد نے بھی یہودیت اختیار کرلی، پھر 354 قبل مسیح میں یثرب سے دو یہودی مبلغ یمن پہنچے تو ان کے اثر سے یمن کے حمیری بادشاہ "یوسف ذونواس" نے جب یہودی مذہب قبول کرلیا تو یمن میں یہودیت کو بہت فروغ ملا۔

یہ لوگ اپنے علم اور دولت کی وجہ سے خود کو عربوں سے بہت برتر خیال کرتے تھے اور عربوں کو اپنے مقابلے میں "اُمّی" یعنی جاھل سمجھتے تھے، نسلی برتری کا شکار یہ متعصب قوم خود کو خدا کا چہیتا اور برگزیدہ تصور کرتی تھی، ان کا خیال تھا کہ جہنم کی آگ ان کو چند دن سے زیادہ نہیں چھوئے گی، حالاں کہ یہ لوگ اپنے تمام تر اوصاف کھوچکے تھے، سود خوری ان کا شعار بن چکی تھی، حسب ضرورت تورات اور مذہبی احکام میں تحریف کرنا ان کے ہاں عام تھا، مذہب گویا ان کے گھر کی لونڈی جیسا تھا جس کے ساتھ وہ جو چاہیں کریں، چونکہ خود کو تمام اقوام سے برتر جانتے تھے تو ان سے ہر قسم کا دجل و فریب اور ظلم جائز تھا، تاہم اپنی پوری دنیا پرستی کے باوجود مدینہ اور اردگرد کے علاقے میں ان کو الٰہیات اور خدائی علوم میں اجارہ داری حاصل تھی، ان کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مدینہ کے قبائل اوس و خزرج میں کسی کی اولاد نہ ہوتی تو وہ منت مانتا کہ بیٹا ہونے کی صورت میں اسے یہودی بنادیں گے۔

*عیسائیت:*

عربوں میں تیسرا اہم مذہب عیسائیت تھا، حضرت عیسی علیہ السلام سے کم و بیش 250 سال بعد روم کی عیسائی حکومت کے زیراثر شام کی طرف کے عرب قبائل نے عیسائیت قبول کرلی، دوسری طرف حیرہ کے عرب بادشاہ "نعمان بن منذر" نے دین عیسوی قبول کیا تو وہاں کے بہت سے لوگ عیسائی ہوگئے، جبکہ یمن میں جب عیسائی مبلغین کی تبلیغ پر کچھ لوگ عیسائی ہوۓ تو یہودی بادشاہ "یوسف ذونواس" نے ان پر بے پناہ ظلم و ستم کیا اور پھر قتل کرادیا، روم کی عیسائی حکومت تک جب یہ خبر پہنچی تو قیصر روم بہت غصبناک ہوا، اس نے شاہ حبشہ کو جو رومی حلقہ اثر میں ایک عیسائی حکمران تھا، حکم دیا کہ یوسف ذونواس سے اس ظلم و ستم کا بدلہ لیا جائے، چنانچہ وہاں سے ایک حبشی نژاد لشکر آیا اور یوسف ذونواس کو شکست دےکر یمن پر بھی عیسائی حکومت قائم کردی۔

"ابرھہ بن اشرم" اسی لشکر کا ایک فوجی سردار تھا جو بتدریج ترقی کرکے بالآخر یمن کا نیم خود مختار بادشاہ بن بیٹھا، یہ کٹر عیسائی تھا اور اس نے یمن میں عیسائیت کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کیا، یاد رہے کہ یہ وہی ابرھہ ہے جس نے "صنعاء" میں کعبہ کے مقابلے پر ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا اور پھر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادہ سے مکہ پر حملہ آور ہوا تھا، (اس واقعہ کی تفصیل قسط نمبر 6 اور 7 میں گزر چکی ہے۔)

اس زمانے کے عیسائی حضرت عیسی' علیہ السلام کی تعلیمات کے بجائے "سینٹ پال" کے مذہب کے پیرو ہو چکے تھے، سینٹ پال پہلے یہودی تھا، اس نے دعو'ی کیا کہ اسے حضرت عیسی' علیہ السلام نے خواب میں حکم دیا ہے کہ میرا دین پھیلاؤ، یوں وہ عیسائی ہوا اور پھر اس نے بتدریج عیسائیت کو ایک الہامی مذہب سے شرک و گمراہی سے لتھڑا ہوا مذہب بنا دیا، اس نے عیسائیت میں عقیدۂ تثلیث یعنی تین خداؤں کا عقیدہ شامل کیا، حضرت عیسی' علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا۔

اس نے عیسائیوں کو اس فریب میں مبتلا کردیا کہ حضرت عیسی' علیہ السلام سولی چڑھ کر سب عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرگئے ہیں اور اب انہیں گناہ کی کھلی چھٹی ہے، سینٹ پال کے زیر اثر عیسائی صرف پادری کے سامنے اعتراف جرم و گناہ کو ہی کافی سمجھتے، تاہم یہود کے مقابلے میں ان کی اخلاقی حالت قدرے بہتر تھی اور قبول حق کی صلاحیت سے بھی یہ لوگ بہرہ ور تھے، اس بات کا اندازہ آج بھی کیا جاسکتا ہے کہ آج بھی اسلام کی حقانیت جان کر مسلمان ہونے والوں میں یہودیوں کے مقابلے میں عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں