*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 16*
*شجرۂ نسب محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم*
شروع کی اقساط میں قریش مکہ کی تاریخ بیان کی گئی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد کا مختصر ذکر بھی آیا، اب ان کا دوبارہ تفصیلی ذکر کیا جارہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ نسب بہت سی تاریخی شہادتوں اور حوالوں کے مطابق چالیس پشت بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام تر بزرگوں کے ناموں کے متعلق مستند معلومات نہ ہونے کی وجہ سے آپ کا سلسلۂ نسب حضرت "عدنان" تک جا کر روک دیا جاتا ہے، حضرت عدنان حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کوئی بیس پشت بعد پیدا ہوئے، انہی کے نام پر بنو اسماعیل کو بنو عدنان بھی کہا جاتا ہے، حضرت عدنان تک آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن عبداللہ بن عبدالمطلب (شَیْبَہ) بن ہاشم (عمرو ) بن عبد مناف (مغیرہ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فِہر بن مالک بن نضر (قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مُدرکہ (عامر ) بن الیاس بن مضر بن نِزار بن مَعَد بن عَدْنان۔
(ابن ہشام ۱/۱ , ۲ تاریخ الطبری ۲/۲۳۹-۲۷۱)
عدنان سے اوپر کے سلسلۂ نسب کی صحت پر اہل سِیر اور ماہرینِ انساب کا اختلاف ہے، کسی نے توقف کیا ہے اور کوئی قائل ہے، یہ عدنان سے اوپر ابراہیم علیہ السلام تک منتہی ہوتا ہے۔
عدنان بن أد بن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن یوز بن قموال بن أبی بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلحن بن أرعوی بن عیض بن ذیشان بن عیصر بن أفناد بن أیہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن اسماعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام۔ (طبقات ابن سعد ۱/۵۶،۵۷.. تاریخ طبری ۲/۲۷۲..)
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر کے سلسلۂ نسب میں یقینا کچھ غلطیاں ہیں، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام تک جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارح (آزر ) بن ناخور بن ساروع (یاساروغ) بن راعو بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (کہا جاتا ہے کہ یہ ادریس علیہ السلام کا نام ہے) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن شیث علیہ السلام بن آدم علیہ السلام۔ (ابن ہشام ۱/۲-۴.. تاریخ طبری ۲/۲۷۶..)
بعض ناموں کے متعلق ان مآخذ میں اختلاف بھی ہے اور بعض نام بعض مآخذ سے ساقط بھی ہیں۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں