سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 21


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 21


*طلوع سحر:*

حضرت عبداللہ کی شادی کے وقت عمر تقریباً سترہ (17) یا بائیس (22) برس تھی، عرب میں دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین ماہ تک اپنے سسرال میں رہائش پذیر رہتا، چنانچہ حضرت عبداللہ بھی تین ماہ اپنے سسرال میں مقیم رہے، بعد ازاں حضرت آمنہ کو لےکر مکہ اپنے گھر واپس آگئے۔

اسلام سے پہلے دور جہالت میں باقاعدہ نکاح کا کوئی عام رواج نہ تھا، صرف خال خال ہی طبقہ اشرافیہ میں باقاعدہ نکاح کیا جاتا، ورنہ عام طور پر مرد و زن کے ازدواجی تعلقات زنا کی ہی صورت تھے، اسلام کے بعد جن کے باقاعدہ طریقے سے نکاح ہوئے تھے ان کی شادیوں کو جائز اور صحیح سمجھا گیا اور ایسے جوڑوں کے اسلام لانے کے بعد ان کے قبل اسلام نکاحوں کو شریعت اسلامی کے مطابق درست قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں سمجھی تھی، ایسا ہی ایک صحیح اور باقاعدہ نکاح حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا ہوا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ "میری ولادت باقاعدہ نکاح سے ہوئی، نہ کہ (نعوذباللہ) زنا یا بدکاری سے۔"

پہلے کی اقساط میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا حضرت ہاشم کے دور سے قریش مکہ کے تجارتی قافلے ایران و شام اور یمن و ہند تک جایا کرتے تھے تو ایسا ہی ایک تجارتی قافلہ لےکر حضرت عبداللہ بھی شام کی طرف گئے، وہاں سے واپس مکہ کی طرف لوٹتے ہوئے راستہ میں یثرب (مدینہ) کے قریب وہ شدید بیمار پڑگئے، چنانچہ وہ مدینہ میں ہی اپنے ننھیال اپنے ماموؤں کے پاس ٹھہر گئے، جبکہ ان کے ہمسفر مکہ واپس آگئے۔

جب حضرت عبدالمطلب نے ان کے ساتھ اپنے چہیتے بیٹے کو نہ دیکھا تو ان سے حضرت عبداللہ کے بارے میں پوچھا، انہوں نے جب حضرت عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ کی بیماری کا بتایا تو حضرت عبدالمطلب بےحد پریشان ہوگئے، فوراً اپنے سب سے بڑے بیٹے "حارث" کو یثرب حضرت عبداللہ کی خیریت معلوم کرنے بھیجا، لیکن جب جناب حارث یثرب پہنچے تو ان کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بیماری کی تاب نہ لاکر وفات پا چکے ہیں اور ان کو "دارالغابغہ" میں دفن بھی کیا جاچکا ہے۔

جناب حارث جب یہ المناک خبر لےکر مکہ واپس آئے تو حضرت عبدالمطلب اپنے جان سے پیارے بیٹے کی جواں موت کا سن کر شدت غم سے بےہوش ہوگئے، حضرت آمنہ پر اپنے محبوب شوہر کی موت کا سن کر سکتہ طاری ہوگیا، دوسری طرف سب بہن بھائی اپنی اپنی جگہ اس دکھ کے ہاتھوں بے حال تھے، خاندان بنو ہاشم پر ایک مجموعی سوگ کا عالم چھا گیا، کیونکہ حضرت عبداللہ اپنے حسن و جمال، لیاقت، کردار اور نابغۂ روزگار شخصیت کی وجہ سے سارے خاندان کی آنکھ کا تارہ تھے، مگر یہ روشن ستارہ محض پچیس سال کی عمر میں ہی ڈوب گیا اور یوں تمام جہانوں کے لیے رحمت بننے والے اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ یتیم ہوگئے۔

جواں سال اور چہیتے بیٹے کی وفات کا غم حضرت عبدالمطلب کے لیے اگر سوہان روح تھا تو دوسری طرف محبوب شوہر کی موت کا دکھ حضرت آمنہ کے لیے لمحہ لمحہ کرب و اذیت کا باعث تھا، لیکن اللہ نے ان دونوں کو زیادہ عرصہ غمزدہ نہ رہنے دیا اور حضرت عبداللہ کی وفات سے چند ماہ بعد بروز سوموار 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 ء کو حضرت آمنہ کے ہاں اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے۔

ایک کنیز کو فوراً حضرت عبدالمطلب کی طرف بھیجا گیا جو خوشی کے مارے دوڑتی ہوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچی جو اس وقت (غالباً) حرم شریف میں موجود تھے، اتنی بڑی خوش خبری کو سن کر حضرت عبدالمطلب فوراً گھر پہنچے اور جب انہوں نے "ننھے حضور" کو دیکھا تو اپنی جگہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا، پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں