سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 36
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صادق اور امین کا خطاب:
پچھلی قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوجوانی کے زمانہ کے دو مشہور واقعات کا تذکرہ کیا گیا، اس قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور شباب کے مزید حالات بیان کیے جائیں گے۔
اللہ نے اپنے تمام انبیاء کو ساری زندگی شرک و گمراہی اور رسوم جاہلیت سے محفوظ رکھا، چنانچہ تمام ہی انبیاء کرام اپنی نبوت و رسالت سے پہلے بھی اپنے خاندان و قبیلہ اور قوم کے صالح ترین انسان قرار پائے، جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات سے ظاہر ہے۔
اسی طرح نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھی اپنی نبوت و رسالت سے پہلے اپنے لڑکپن اور دور جوانی میں شرک و بت پرستی اور تمام مراسم شرک سے بلکل پاک اور منزہ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیکی، خوش اطواری، دیانت، امانت اور راست بازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلکہ "الصادق یا الامین" کہہ کر پکارتے تھے، جیسا کہ ابن ھشام کی روایت میں ہے کہ:
"پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں جوان ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے اور جاہلیت کی تمام گندگیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت اور ہر قسم کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد کامل ہوگئے اور مروت و حسن خلق، حسب و نسب، حلم و بردباری و راست بازی اور صداقت و امانت میں سب سے بڑھ گئے اور فحش و اخلاق رذیلہ (بری عادات و خصلت) سے انتہا درجہ دور ہوگئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم "(الصادق) الامین" کے نام سے مشہور ہوگئے۔"
حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو "اساف و نائلہ" (دو بتوں کے نام) کو چھوتے تھے، ایک بار میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا، جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو ان بتوں کو چھوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو (ان بتوں کو چھونے سے) منع کیا۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ چھونے سے ہوتا کیا ہے، اس لیے دوبارہ ان کو چھوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ذرا سختی سے منع کرتے ہوۓ فرمایا: "کیا تم کو منع نہیں کیا تھا۔"
حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، " اللہ کی قسم! اس کے بعد کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا، یہاں تک کہ اللہ تعالی' نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا کلام اتارا۔"
(مستدرک حاکم.. جلد 3 صفحہ 216)
ایک مرتبہ (ایک دعوت میں) قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھانا لا کر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کھانے سے انکار کیا، وجہ یہ تھی کہ قریش جانوروں کو غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتوں کے چڑھاوے کھانے سے اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے نفرت تھی۔
خلاصہ یہ کہ تمام انبیاء کرام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ابتداء سے ہی نہایت صالح طبیعت والے اور کفروشرک اور ہر قسم کے فحشاء و منکر سے پاک اور منزہ تھے۔
"مسز اینی بیسنٹ" ہندوستان میں تھیو سوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے، وہ لکھتی ہے:
"پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس بات نے میرے دل میں اُن کی عظمت وبزرگی قائم کی ہے، وہ اُن کی وہ صفت ہے جس نے اُن کے ہم وطنوں سے "الامین" (بڑا دیانت دار) کا خطاب دلوایا، کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے قابلِ اتباع نہیں، ایک ذات جو مجسم صدق ہو، اُس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے، ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغامِ حق کا حامل ہو۔"
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں