سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 34



سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 34

ملک شام کا پہلا سفر اور بُحیرہ راہب سے ملاقات:


روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بارہ برس اور تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دومہینے دس دن کی ہوگئی تو ابوطالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر پر نکلے، حضرت ابوطالب کا تجارتی قافلہ سرزمین شام میں بصریٰ شہر کی اہم تجارتی منڈی کے قریب پہنچا تو وہاں پڑاؤ ڈال دیا، بصریٰ ملک شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے، اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا۔

وہیں قریب ہی ایک صومعہ (گرجا) تھا، جس میں "جرجیس" نامی ایک عیسائی عبادت گزار راھب رہتا تھا جو " بحیرہ راھب " کے نام سے مشھور تھا، اہل تحقیق کے نزدیک بحیرا راھب موحد تھا،  مشرک یا بت پرست نہ تھا، وہ تمام آسمانی کتابوں کا عالم اور نبی آخرالزماں کی جو علامات آسمانی کتابوں میں مذکور تھیں، ان سے بخوبی واقف تھا۔

اس سے پہلے بھی بارہا اس کے صومعہ (گرجا) کے پاس سے تجارتی قافلے گزرتے رہے تھے، مگر بحیرا کبھی کسی کی طرف ملتفت نہ ہوا تھا، لیکن جب اس بار حضرت ابوطالب کا کاروان تجارت اس کے گرجا کے پاس اترا تو اس راہب نے اپنی خانقاہ میں سے دیکھا کہ قافلہ والوں میں سے ایک نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے، بحیرا راہب اپنی بصیرت سے پہچان گیا کہ یہ نوجوان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

بحیرا راھب خلاف معمول اپنی عبادت گاہ سے باہر نکل آیا اور متجسسانہ نظروں سے ایک ایک کو دیکھنے لگا، پھر جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو دیکھتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکار اٹھا: 

"یہی ہے سردار دو جہانوں کا، یہی ہے رسول پروردگار عالم کا جس کو اللہ جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا۔" 

حضرت ابوطالب نے کہا: "آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟"

بحیرا راھب نے بتایا: "جب آپ سب لوگ پہاڑ کی گھاٹی سے نکلے تو اس وقت میں اپنی عبادت گاہ سے آپ سب کی طرف دیکھ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ اس نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے، پھر میں نے دیکھا کہ کوئی شجر وحجر ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو اور شجر و حجر نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ (تعظیم) نہیں کرتے ہیں، اس کے علاوہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مہرنبوت کی وجہ سے بھی پہچان چکا ہوں جو آپ کے کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس ہے اور ہم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں۔"

راھب یہ کہہ کر واپس ہوگیا اور بصد اشتیاق تمام قافلہ کے لیے کھانا تیار کرایا، جب کھانا تیار ہوا تو سب کھانے کے لیے حاضر ہوئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود نہ تھے، راھب کے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اونٹ چرانے آس پاس نکل گئے ہیں، ایک آدمی بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا گیا، سب لوگ جس درخت کے نیچے بیٹھے ہوۓ تھے،  وہاں کوئی سایہ دار جگہ آپ کے لیے بچی ہوئی نہ تھی، سایہ دار جگہ نہ ملنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھوپ میں ہی بیٹھ گئے تو درخت کی شاخیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئیں، بحیرہ ان سارے معاملات کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رہا تھا۔

اس نے حضرت ابوطالب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے، لیکن راہب نے کہا کہ اس کے علم کے مطابق اس لڑکے کا باپ زندہ نہیں ہے، حضرت ابو طالب نے کہا کہ حقیقت میں ان کے باپ زندہ نہیں ہیں۔

اس کے بعد بحیرا راہب نے حضرت ابوطالب سے کہا: "آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جو آسمانی کتابوں میں اللہ کے آخری نبی کے متعلق بتائی گئی ہیں، اگر شام کے یہود ونصاری' نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ نشانیاں پہچان لیں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کو نقصان نہ پہنچا دیں۔"

چنانچہ بحیرہ کے مشورہ پر حضرت ابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ کو مکہ واپس بھیج دیا، اس کے بعد حضرت ابوطالب پھر کبھی شام کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ نہیں لے گئے، مبادا کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اسی سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں