سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 31
=======================
ایام طفولیت اور سانحات:
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے شق صدر کے واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار یا پانچ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کے حوالے کر دیا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے لئے "اُم ایمن" (رضی اللہ عنہا) کو مامور کیا جو آپ کے والد کی کنیز تھیں، ان کا اصلی نام برکہ تھا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ حضرت آمنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے مرحوم شوہرحضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لئے یثرب روانہ ہوئیں، دو اونٹوں پر مشتمل اس مختصر سے قافلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں، وہ "دارالنابغہ" میں اتریں جہاں حضرت عبداللہ مدفون تھے اور ایک مہینہ وہاں قیام کیا۔
وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نجار کے تالابوں میں تیرنا سیکھا اور گڑھی کے سامنے ننھیالی لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتے، حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ یثرب کے یہود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑے غور سے دیکھتے، میں نے سنا کہ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ یہ اس اُمت کے نبی ہیں اور یہی ان کا دارالحجرت ہے، میں نے اُن کی یہ بات ذہن میں محفوظ کرلی، واپسی میں بدر کے قریب "ابواء" کے مقام پر حضرت آمنہ بیمار ہوئیں جس کی وجہ سے اس قافلہ نے وہاں قیام کیا، حضرت آمنہ نے وہیں وفات پائی، وقتِ آخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھے تھے، ماں نے اپنے جلیل القدر بیٹے کو جی بھر کے دیکھا اور چند شعر پڑھے، جن کا متن "مواہب لدنیہ" میں محفوظ ہے، بوقت وفات حضرت آمنہ کی عمر تقریباً ۲۸ سال تھی اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے بعد چھ سال تین مہینے تک زندہ رہیں۔
حضرت آمنہ کو اسی جگہ دفن کیا گیا اور حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا آپ کو لےکر مکہ واپس حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں، یوں شکم مادر میں ہی یتیم ہونے والے "ننھے حضور" اپنی والدہ کے ساتھ بھی زیادہ دن نہ گزار سکے۔
حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا نے ایک ماں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی کی، ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ خاتون میری والدہ کے بعد میری ماں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نبی بنائے گئے تو حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا اولین تصدیق کرنے والوں میں سے ہو گئیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا، ان کا پہلا نکاح بنی حارث کے عبید بن زید بن عمرو سے ہوا جن سے ایمن پیدا ہوئے، جن کے نام پر ان کی کنیت اُمّ ایمن تھی، پہلے شوہر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کروایا جن سے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔
والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنی کفالت میں لے لیا، حضرت عبدالمطلب کو آپ سے بہت محبت تھی اور آپ کو سب اولادوں سے بڑھ کر محبوب جانتے تھے، روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب کو یقین تھا کہ ان کا پوتا بڑا نام پانے والا ہے، چنانچہ جب بنی مدلج کی ایک جماعت اُن سے ملنے آئی تو ان میں بہت سے قیافہ شناس تھے، انہوں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقشِ کف پا دیکھا تو اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ کفِ پا (جو مصلیٰ ابراہیم کہلاتا ہے) کے مشابہ پایا، اس لئے انہوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ اس بچے کی بطور خاص حفاظت اور نگرانی کریں، چنانچہ حضرت عبدالمطلب حطیم میں اپنی نشست پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قریب بٹھا کر پشت پر ہاتھ پھیرا کرتے اور کہتے کہ اس کی تو بہت بڑی شان ہے، دادا اپنے پوتے کو ہمیشہ ساتھ رکھتے اور اپنے ساتھ ہی کھانا کھلاتے، اسی سال حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔
حضرت عبدالمطلب کے زیرسایہ آپ کا بچپن بہت آرام سے گزر رہا تھا، صرف حضرت عبدالمطلب ہی نہیں بلکہ آپ سے آپ کے تمام چچا اور پھوپھیاں بھی بےحد محبت کرتی تھیں، لیکن اللہ کی مشیت کچھ اور تھی اور ابھی آپ اٹھ سال کے تھے کہ حضرت عبدالمطلب کا بھی انتقال ہوگیا، آپ کو اپنے دادا سے بہت انس و محبت تھی، جب حضرت عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آپ بھی جنازہ کے ساتھ تھے اور شدت غم سے روتے جاتے تھے، اس وقت حضرت عبدالمطلب کی عمر بیاسی سال تھی۔
آٹھ سال کا ایک معصوم بچہ جس کے ماں باپ بھی وفات پا چکے اور اب شفیق دادا بھی، نہ کوئی بہن، نہ کوئی بھائی، تن تنہا ۔۔۔ لیکن کون جانتا تھا کہ بظاہر یہ بےآسرا، معصوم بچہ کچھ ہی عرصہ بعد ہزاروں لاکھوں کا آسرا بننے والا ہے، بلا شک و شبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے لمحہ لمحہ میں ہمارے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں